اتوار کی شب پاکستان کے حکمران اتحاد میں شامل جماعت متحدہ قومی موومنٹ کی جانب سے حکومت سے علیحدگی کے فیصلے کے بعد اسلام آباد سیاسی سرگرمیوں کا مرکز بن گیا ہے جہاں وزیرِ اعظم سید یوسف رضا گیلانی اور حکمران جماعت پاکستان پیپلز پارٹی کے دیگر رہنما حکومت بچانے کیلئے سیاسی رابطوں میں مصروف ہیں۔
پہلے جمعیت علماء ِ اسلام اور اب ایم کیو ایم کی جانب سے حکمران اتحاد سے علیحدگی کے فیصلے نے وزیرِ اعظم گیلانی کی حکومت کو اقلیتی حکومت میں تبدیل کردیا ہے جسے پارلیمان کے 342 رکنی ایوانِ زیریں میں 172 ارکان کی سادہ اکثریت بھی حاصل نہیں رہی۔
کیا وزیرِ اعظم گیلانی کی جانب سے سیاسی جوڑ توڑ کی کوششیں کامیاب ہو پائیں گی یا ان کی حکومت کو رخصت ہونا ہوگا، اس سوال کا جواب آئندہ چند روز میں واضح ہوجائے گا تاہم پاکستانی سیاست کی بساط پر چلی جانے والی چالیں اور جوڑتوڑ کن منظر ناموں کو تشکیل دے سکتے ہیں، ان کا سرسری جائزہ ذیل میں پیش ہے:
گیلانی کا استعفیٰ
سیاسی تجزیہ کاروں اور صحافیوں کا ایک گروہ موجودہ سیاسی بحران کو "انجینئرڈ" قرار دیتے ہوئے اس کی تانے بانے ایوانِ صدر سے جوڑتا ہے۔ ان حضرات کے خیال میں پاکستان پیپلز پارٹی کی قیادت عوام میں حکومت کی گرتی ہوئی ساکھ اور نا مقبولیت سے پریشان ہے اور وزیرِ اعظم کو قربانی کا بکرا بنا کران کی قیمت پر اقتدار میں رہنے کا جواز تراشنا چاہتی ہے۔
ان تجزیہ کاروں کے بقول اس "پلان" کے مطابق حکومت کی گزشتہ ڈھائی سالہ خراب کارکردگی کا ذمہ دار وزیرِاعظم گیلانی کو قرار دے کر انہیں فارغ کردیا جائے گا اور پی پی پی ایک نئے وزیرِ اعظم کو نامزد کرکے نئے چہروں اور "پرانا گند" صاف کرنے کے وعدوں کے ساتھ مزید ڈھائی سال حکومت کرنے کے قابل ہوجائے گی۔
گزشتہ ماہ حکومت کا ساتھ چھوڑ جانے والے جے یو آئی کے رہنماؤں کی جانب سے وزیرِ اعظم گیلانی کو حکمران اتحاد میں دراڑ ڈالنے کا ذمہ دار قرار دینے اور حکومت میں واپسی کیلئے ان کی برخواستگی کا مطالبہ کرنے کو بھی یہ تجزیہ کار اسی "پلان" کا حصہ قرار دے رہے ہیں۔ ان کے مطابق گیلانی صاحب کو تمام تر خرابیوں کا ذمہ دار قرار دے کر ان کی رخصتی کے بعد جے یو آئی اور ایم کیو ایم کو "منا" کر دوبارہ حکومتی اتحاد میں لے آیا جائے گا اور نئی اتحادی حکومت 2013 تک اپنی مدت پوری کرے گی۔
تاہم پیر کی شام صدر آصف علی زرداری کی جانب سے وزیرِ اعظم گیلانی پر اعتماد کا اظہار کیے جانے کے اعلان کے بعد بظاہر یہ تھیوری قابلِ بھروسا نہیں لگتی کہ پی پی پی خود گیلانی صاحب سے جان چھڑانا چاہ رہی ہے۔
نیا حکومتی اتحاد
جے یوآئی اور ایم کیوایم کی جانب سے اپنی راہیں جدا کرلینے کے بعد وزیرِاعظم گیلانی نئے اتحادیوں کی تلاش میں ہیں۔ ایوان کی دوسری بڑی جماعت مسلم لیگ (ن) کے بارے میں یہ تاثر پایا جاتا ہے کہ وہ گیلانی صاحب کی حامی ہے تاہم موجودہ حالات میں نون لیگ کی جانب سے حکومت کو درکار حمایت میسر آنا بظاہر ممکن نہیں۔ اس صورت میں گیلانی صاحب کی ڈوبتی کشتی کو جو سہارا میسر آسکتا ہے وہ قاف لیگ کا ہے۔ قاف لیگ کے 51 ارکان حکومت کو ایوان میں نہ صرف سادہ اکثریت دلا سکتے ہیں بلکہ ان کی بدولت پیپلزپارٹی کی حکومت باآسانی اقتدار کی اپنی باقی ماندہ مدت پوری کرسکتی ہے۔
تاہم قاف لیگ کے اندر پائی جانے والی گروہ بندی کے باعث اس کی بطورِ جماعت حکومت میں شمولیت بظاہر مشکل نظر آتی ہے۔ تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ قاف لیگ کے کئی اراکین پیپلزپارٹی سے اتحاد کے بجائے نون لیگ کے ساتھ اشتراک کو ترجیح دیں گے اور پی پی کے ساتھ حکومتی اتحاد میں شامل ہونے کا فیصلہ کرنے کی صورت میں قاف لیگ کا شیرازہ کسی حد تک بکھر بھی سکتا ہے۔
وزیرِاعظم کے خلاف عدم اعتماد
اگر وزیرِاعظم گیلانی اتحادیوں کے تحفظات دور کرنے اور نئے پارٹنرز کی تلاش میں ناکام ہوجاتے ہیں تو اس صورت میں انہیں ایوان سے اعتماد کا ووٹ حاصل کرنا پڑ سکتا ہے۔ اس وقت حکمران اتحاد کے ارکان کی تعداد 163 ہے جن میں پی پی پی کے 127، عوامی نیشنل پارٹی کے 13، مسلم لیگ (فنکشنل) کے 5، 15 فاٹا اور آزادارکان جبکہ بلوچستان نیشنل پارٹی (عوامی)، نیشنل پیپلز پارٹی اور پیپلز پارٹی شیرپاؤ کا ایک، ایک رکن شامل ہے۔
حکومت برقرار رکھنے کیلئے وزیرِ اعظم گیلانی کو 172 ارکان کی سادہ اکثریت درکار ہے جس کا حصول موجودہ صورتِ حال میں مشکل نظر آتا ہے۔ ایم کیو ایم کی جانب سے اپوزیشن بینچوں پر بیٹھنے کے فیصلے کے بعد ایوان میں اپوزیشن ارکان کی تعداد 177 ہوگئی ہے جن میں مسلم لیگ (نواز ) کے 91، مسلم لیگ (قائدِاعظم) کے 50، ایم کیو ایم کے 25، جے یوآئی کے 8 جبکہ فاٹا کے 3 ارکان شامل ہیں۔
تاہم پیر کو سامنے آنے والے بیانات کے بعد بظاہر یہ لگتا ہے کہ اپوزیشن جماعتوں میں سے کوئی بھی پارٹی وزیرِاعظم گیلانی کے خلاف تحریکِ عدم اعتماد پیش کرنے کا ارادہ نہیں رکھتی کیونکہ ان کی رخصتی کے بعد پیدا ہونے والا خلاء پورا کرنے کا مینڈیٹ کسی بھی جماعت کے پاس بھی موجود نہیں۔
تجزیہ کاروں کے مطابق اس صورتِ حال میں یہ ممکن ہے کہ مذکورہ انتظامِ حکومت کچھ عرصہ تک اسی طرح چلتا رہے۔ یعنی وزیرِاعظم گیلانی اقلیتی حکومت چلاتے رہیں اور اپوزیشن کی جانب سے ان پر اعتماد کا ووٹ حاصل کرنے پر اصرار نہ کیا جائے۔ تاہم اس بات پر اتفاق پایا جاتا ہے کہ یہ سیٹ اپ عارضی ہوگا اور جلد یا بدیر یا تو حکومت کو ایوان میں اپنی اکثریت ثابت کرنا ہوگی یا اسے رخصت ہونا ہوگا۔
مڈٹرم الیکشن
گیلانی صاحب کے خلاف عدم اعتماد کی ممکنہ تحریک کی کامیابی کی صورت میں حکومت سازی کا متبادل بندوبست بظاہر ممکن نظر نہیں آتا۔ ایوان میں دوسری بڑی جماعت مسلم لیگ (ن) کے تعلقات تیسری بڑی جماعت مسلم لیگ (قاف) سے ابتدا ہی سے کشیدہ رہے ہیں جبکہ حال ہی میں مسلم لیگ (نواز) اور ایم کیو ایم کے رہنماؤں کی غیر محتاط بیان بازی کے بعد دونوں جماعتوں کے درمیان فوری اشتراکِ عمل کے امکانات بھی معدوم ہوتے نظر آتے ہیں۔
اس صورتِ حال میں موجودہ اسمبلی میں رہتے ہوئے مسلم لیگ (ن) کیلئے حکومت سازی بظاہر ممکن نہیں اور دارالحکومت میں پیپلز پارٹی کی حکومت کی رخصتی کی صورت میں ایوانِ زیریں کی تحلیل اور نئے انتخابات کے انعقاد کی بازگشت بھی سنائی دے رہی ہے۔ تاہم تجزیہ کاروں کے مطابق حکومتی اتحاد اور حزبِ مخالف میں شامل جماعتوں میں سے کوئی بھی جماعت نئے انتخابات کیلئے نہ ہی آمادہ نظر آتی ہے اور نہ ہی تیار۔
ٹیکنو کریٹس کی حکومت
چند ماہ قبل پاکستانی میڈیا اور سیاسی حلقوں میں "بنگلہ دیش ماڈل" کا خاصا تذکرہ تھا اور ملک کے حالیہ سیاسی بحران کے بعد کچھ حلقے ایک بار پھر اس تجویز کا دبے دبے لفظوں میں تذکرہ کررہے ہیں۔ اس ماڈل کی رو سے فوج ، عدلیہ یا اسٹیبلشمنٹ کی مداخلت کے ذریعے منتخب حکومت کی رخصتی اور اس کی جگہ بنگلہ دیش میں کیے گئے تجربے کی روشنی میں ٹیکنو کریٹس کی عارضی حکومت کے قیام کی تجویز ہے جو ایک طے کردہ مدت کے دوران تمام سیاستدانوں کا احتساب کرنے اور ملکی معاملات کو ایک ڈگر پہ ڈالنے کے بعد نئے انتخابات کراکے اقتدار آنے والوں کو منتقل کردے۔
براہِ راست فوجی مداخلت
ملکی سیاسی تجزیہ کار حالیہ سیاسی بحران کے پیشِ نظر براہِ راست فوجی مداخلت اور فوج کی جانب سے اقتدار اپنے ہاتھ میں لینے کے امکان کو مسترد کرتے ہیں۔ تاہم غیر ملکی میڈیا اور تجزیہ کار مسلسل اس خدشے کا اظہار کرتے آئے ہیں کہ اگر پاکستان کے سویلین حکمران اپنے مسائل خود حل کرنے اور عوامی مشکلات کا حل نکالنے میں ناکام ہوگئے تو اس صورت میں فوج خود اقتدار سنبھال سکتی ہے۔