پاکستان میں پولیس کے اعلیٰ افسران بالخصوص آئی جیز کے آئے دن کے تبادلوں پر سابق آئی جیز کی تنظیم ایسویسی ایشن آف فارمر انسپکٹر جنرل پولیس نے شدید تحفظات کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ کسی بھی افسر کو ہٹانے کا قانون کے مطابق طریقہ کار موجود ہے لیکن افسروں کو ہٹانے میں شفافیت نہ ہونے کی وجہ سے حکومتی ساکھ کو نقصان پہنچتا ہے۔
اسلام آباد سمیت ملک بھر میں قائم اس تنظیم کی طرف سے جاری کردہ پریس ریلیز میں کہا گیا ہے کہ گزشتہ چند برسوں کے دوران آئی جیز کی مدتِ ملازمت مکمل نہ کرائے جانے کا رجحان بڑھ رہا ہے۔
پریس ریلیز میں کہا گیا ہے کہ چند برسوں کے دوران صوبہ پنجاب میں چار، خیبرپختونخواہ میں تین اور اسلام آباد میں تین آئی جیز کو ان کی مدت ملازمت مکمل ہونے سے پہلے ہٹا دیا گیا ہے۔
سندھ کے حوالے سے تنظیم کا کہنا ہے کہ وہاں صورت حال اس سے بھی زیادہ خراب ہے جہاں دو آئی جیز کو عدالتی مداخلت پر زیادہ عرصہ گزارنے کا موقع ملا، وگرنہ حکومت اُنہیں ان کی مدتِ ملازمت سے بہت پہلے نکالنا چاہتی تھی۔
سابق ڈی آئی جی اسلام آباد پولیس اور سابق آئی جیز کی تنظیم کے سیکرٹری جنرل کمال الدین ٹیپو نے وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے کہا کہ ہر حکومت کی خواہش ہوتی ہے کہ امن و امان بحال رہے۔ اس مقصد کے لیے پولیس آرڈر تشکیل دیا گیا تھا۔ اس آرڈر میں پولیس افسران کی مدت ملازمت مقرر کی گئی تھی، لیکن ایک افسر کیسے پرفارم کرے گا جب اسے ہر روز اپنی فراغت کا ڈر ہو۔
انہوں نے کہا کہ پولیس میں ایسا نظام بنا دیا گیا ہے جہاں ایک ایم این اے کے کہنے پر یا حکومت کے کسی کام نہ ہونے پر اسے ہٹانے کا اعلان کر دیا جاتا ہے۔ کسی بھی افسر کی تعیناتی کی مدت لازمی پوری ہونی چاہیے۔ افسر کے ایسے تبادلوں سے فورس کے مورال پر بہت زیادہ اثر پڑتا ہے۔ ایک افسر جب کسی نئے علاقہ میں جاتا ہے تو وہاں کے ماحول اور روایات کے مطابق اپنی پالیسی ترتیب دینے اور اپنی ٹیم تشکیل دینے میں چھ ماہ کا وقت چاہیے ہوتا ہے۔ اتنے عرصہ میں اس سے پرفارمنس بھی مانگی جاتی ہے لہذا افسر بجائے عوام کے تحفظ کے کام کرنے کے ان لوگوں کو خوش کرنے میں لگ جاتا ہے جنہوں نے اسے لگانا ہے۔
افسران کو ہٹانے کے طریقہ کار پر کمال الدین ٹیپو کا کہنا تھا کہ اس مقصدکے لیے پبلک سیفٹی کمشن کا ادارہ موجود ہے جہاں کسی بھی افسر کو ہٹانے کے لیے شکایت درج کروائی جا سکتی ہے۔ لیکن ایسا نہیں کیا جا رہا۔
حالیہ دنوں میں سندھ کے موجودہ آئی جی کلیم امام کو ہٹانے کی کوششوں کے حوالے سے انہوں نے کہا کہ وہ ایک یونیفارم افسر ہیں، لیکن ان کے خلاف کابینہ کا ایک وزیر کھڑا ہو کر پریس کانفرنس کر رہا ہے اور مذکورہ افسر کو جواب دینے کا موقع بھی نہیں دیا جا رہا۔ اس کا میڈٰیا ٹرائل کیا جا رہا ہے۔ اس کے خلاف طویل پریس کانفرنس دکھائی جا رہی ہے۔ یہ سب پیمرا کوڈ آف کنڈکٹ کے بھی خلاف ہے لیکن اس پر کوئی بات نہیں کر رہا۔
کمال الدین ٹیپو نے کہا کہ ایسا صرف موجودہ حکومت کے ساتھ نہیں بلکہ ہر حکومت کے ساتھ ایسا ہوتا آیا ہے۔ حالیہ دنوں میں آئی جی خیبر پختونخواہ کو تبدیل کر دیا گیا اور ان پر الزام کیا تھا اور وجہ کیا تھی اس بارے میں کوئی بات نہیں کی گئی اور نہ ہی ان کی غلطی بتائی گئی۔
کلیم امام کے حوالے سے انہوں نے کہا کہ میری اطلاع کے مطابق ان پر الزام ہے کہ کسی سیاست دان کے خلاف عدالت نے حکم دیا کہ مقدمہ درج کیا جائے اور کلیم امام نے عدالتی حکم پر عمل درآمد کیا جس کے بعد انہیں ہٹانے کے حوالے سے باتیں شروع ہو گئی ہیں۔ کلیم امام عدالتی حکم کے پابند ہیں۔
انہوں نے کہا کہ اندرونی سلامتی کے لیے پولیس ذمہ دار ہے اور وہ ایک خود مختار ادارہ ہے لیکن اس کو خود مختاری نہیں دی جا رہی۔
آئی جی سندھ کلیم امام کو ہٹانے کے معاملہ پر پوری سندھ حکومت کوشش کرتی نظر آ رہی ہے اور فی الحال وفاق اس معاملہ میں آئی جی سندھ کا ساتھ دیتا نظر آ رہا ہے، جس نے سندھ حکومت کے سامنے سوال اٹھایا ہے کہ انہیں ہٹانے کی آخر وجہ کیا ہے۔
دوسری جانب سندھ ہائی کورٹ نے آئی جی کلیم امام کو ہٹانے کے صوبائی کابینہ کے فیصلہ کے خلاف حکم امتناع جاری کر دیا ہے۔
سندھ ہائی کورٹ میں دائر درخواست میں موقف اختیار کیا گیا تھا کہ آئی جی سندھ کو ہٹانے سے متعلق سندھ حکومت کے اقدامات غیر آئینی اور غیر قانونی ہیں۔ اس کے علاوہ آئی جی سندھ کو ہٹانے کا طریقہ کار سندھ حکومت کے نئے قوانین پولیس ایکٹ 2019 کی بھی خلاف ورزی ہے۔ اس لئے آئی جی سندھ کو ہٹانے کا نوٹی فکیشن کالعدم قرار دیا جائے۔
درخواست کی سماعت کے دوران سندھ ہائی کورٹ نے آئی جی کو ہٹانے کے صوبائی کابینہ کے فیصلہ کے خلاف حکم امتناع جاری کر دیا۔ سندھ ہائی کورٹ نے قرار دیا کہ صوبے اور وفاق کی مشاورت کے بعد آئی جی تبدیل ہو گا۔ بادی النظر میں آئی جی کو ہٹانے سے پہلے وفاق سے مشاورت نہیں کی گئی۔ سندھ حکومت کو آئی جی کی تبدیلی کے خط کا جواب نہیں ملا، جب تک اسٹیبلشمنٹ ڈویژن سے جواب نہیں آتا کلیم امام آئی جی سندھ رہیں گے۔