اسلام آباد —
پاکستان کے وزیر اعظم نواز شریف نے منگل کو راولپنڈی میں فوج کے صدر دفتر 'جی ایچ کیو' کا دورہ کیا جہاں اُنھیں ملک کی داخلی سلامتی پر بریفنگ دی گئی اور سرحدوں پر تعینات فوجی دستوں کی کارکردگی سے بھی آگاہ کیا گیا۔
جون میں وزارت عظمٰی کا منصب سنبھالنے کے بعد نواز شریف کا جی ایچ کیو کا یہ پہلا دورہ تھا۔ جی ایچ کیو پہنچنے پر فوج کے سربراہ جنرل اشفاق پرویز کیانی نے ان کا استقبال کیا، جس کے بعد وزیر اعظم نے وہاں ’یادگارِ شہدا‘ پر پھول چڑھائے۔
اس موقع پر وزیر اعظم نے کہا کہ دہشت گردی کے خلاف جنگ میں جانیں قربان کرنے والوں کو ہمیشہ یاد رکھا جائے گا۔
وزیر اعظم نے جی ایچ کیو کا یہ دورہ ایسے وقت کیا جب فوج کے ترجمان نے چند روز قبل ہی ملک کی ایک بڑی مذہبی و سیاسی پارٹی جماعت اسلامی کے امیر منور حسن کے اس بیان کی شدید مذمت کی جس میں اُنھوں نے شمالی وزیرستان میں ڈرون حملے میں مارے جانے والے پاکستانی طالبان کے امیر حکیم اللہ محسود کو ’شہید‘ قرار دیا تھا۔
فوج کے ترجمان نے ایک بیان میں کہا تھا کہ یہ بیان دہشت گردی کے خلاف جنگ میں ’’معصوم‘‘ عوام اور فوجیوں کی قربانیوں کی توہین کے مترادف ہے۔
تاہم ایک سرکاری بیان کے مطابق وزیر اعظم نے جی ایچ کیو میں کہا کہ ’’پاکستان کی مسلح افواج کا ہر سپاہی اور افسر جذبہ ایمانی کے ساتھ میدان میں اترتا ہے ... یہی اس کی اصل قوت اور سب سے بڑا ہتھیار ہے۔‘‘
وفاقی وزیر داخلہ چودھری نثار نے بھی پیر کی شب قومی اسمبلی میں کہا تھا کہ پاکستانی فوج کے بارے میں کسی بھی طرح کا متنازع بیان کسی صورت ملک کے مفاد میں نہیں۔
’’اس وقت پاکستان کی افواج کے حوالے سے کسی قسم کا تنازع ہمارے لیے زہر قاتل سے کم نہیں ... اس لیے یہ کہنا سراسر غلط ہے کہ پاکستان کی فوج امریکہ کے کہنے پر کارروائی کرتی ہے یا کر رہی ہے۔‘‘
اطلاعات کے مطابق وزیر اعظم نواز شریف اور فوج کے سربراہ جنرل اشفاق پرویز کیانی کے درمیان جی ایچ کیو میں ہونے والی ملاقات میں ملک سے دہشت گردی کے خاتمے کے لیے طالبان سے مجوزہ امن مذاکرات پر بھی بات چیت کی گئی۔ لیکن سرکاری بیان میں اس کا کوئی ذکر نہیں کیا گیا۔
وفاقی وزیر داخلہ کہہ چکے ہیں کہ حکیم اللہ محسود کی ڈرون حملے میں ہلاکت کے بعد طالبان سے تمام رابطے ٹوٹ چکے ہیں۔
’’جو پہلے سارے رابطے تھے وہ ٹوٹ چکے ہیں، جو لوگ اس حوالے سے مثبت رائے رکھتے تھے وہ بھی خاموش ہیں۔ اس وقت وہاں (طالبان کی جانب) ڈرون حملے کے حوالے سے ردعمل زیادہ ہے۔‘‘
یکم نومبر کو قبائلی علاقے شمالی وزیرستان میں ڈرون حملے میں کالعدم تحریک طالبان کا سربراہ حکیم اللہ محسود ہلاک ہو گیا تھا جس کے بعد تحریک کے نئے امیر ملا فضل اللہ نے حکومت کے ساتھ مذاکرات نہ کرنے اور سکیورٹی فورسز پر حملوں کا اعلان کیا تھا۔
جون میں وزارت عظمٰی کا منصب سنبھالنے کے بعد نواز شریف کا جی ایچ کیو کا یہ پہلا دورہ تھا۔ جی ایچ کیو پہنچنے پر فوج کے سربراہ جنرل اشفاق پرویز کیانی نے ان کا استقبال کیا، جس کے بعد وزیر اعظم نے وہاں ’یادگارِ شہدا‘ پر پھول چڑھائے۔
اس موقع پر وزیر اعظم نے کہا کہ دہشت گردی کے خلاف جنگ میں جانیں قربان کرنے والوں کو ہمیشہ یاد رکھا جائے گا۔
وزیر اعظم نے جی ایچ کیو کا یہ دورہ ایسے وقت کیا جب فوج کے ترجمان نے چند روز قبل ہی ملک کی ایک بڑی مذہبی و سیاسی پارٹی جماعت اسلامی کے امیر منور حسن کے اس بیان کی شدید مذمت کی جس میں اُنھوں نے شمالی وزیرستان میں ڈرون حملے میں مارے جانے والے پاکستانی طالبان کے امیر حکیم اللہ محسود کو ’شہید‘ قرار دیا تھا۔
فوج کے ترجمان نے ایک بیان میں کہا تھا کہ یہ بیان دہشت گردی کے خلاف جنگ میں ’’معصوم‘‘ عوام اور فوجیوں کی قربانیوں کی توہین کے مترادف ہے۔
تاہم ایک سرکاری بیان کے مطابق وزیر اعظم نے جی ایچ کیو میں کہا کہ ’’پاکستان کی مسلح افواج کا ہر سپاہی اور افسر جذبہ ایمانی کے ساتھ میدان میں اترتا ہے ... یہی اس کی اصل قوت اور سب سے بڑا ہتھیار ہے۔‘‘
وفاقی وزیر داخلہ چودھری نثار نے بھی پیر کی شب قومی اسمبلی میں کہا تھا کہ پاکستانی فوج کے بارے میں کسی بھی طرح کا متنازع بیان کسی صورت ملک کے مفاد میں نہیں۔
’’اس وقت پاکستان کی افواج کے حوالے سے کسی قسم کا تنازع ہمارے لیے زہر قاتل سے کم نہیں ... اس لیے یہ کہنا سراسر غلط ہے کہ پاکستان کی فوج امریکہ کے کہنے پر کارروائی کرتی ہے یا کر رہی ہے۔‘‘
اطلاعات کے مطابق وزیر اعظم نواز شریف اور فوج کے سربراہ جنرل اشفاق پرویز کیانی کے درمیان جی ایچ کیو میں ہونے والی ملاقات میں ملک سے دہشت گردی کے خاتمے کے لیے طالبان سے مجوزہ امن مذاکرات پر بھی بات چیت کی گئی۔ لیکن سرکاری بیان میں اس کا کوئی ذکر نہیں کیا گیا۔
وفاقی وزیر داخلہ کہہ چکے ہیں کہ حکیم اللہ محسود کی ڈرون حملے میں ہلاکت کے بعد طالبان سے تمام رابطے ٹوٹ چکے ہیں۔
’’جو پہلے سارے رابطے تھے وہ ٹوٹ چکے ہیں، جو لوگ اس حوالے سے مثبت رائے رکھتے تھے وہ بھی خاموش ہیں۔ اس وقت وہاں (طالبان کی جانب) ڈرون حملے کے حوالے سے ردعمل زیادہ ہے۔‘‘
یکم نومبر کو قبائلی علاقے شمالی وزیرستان میں ڈرون حملے میں کالعدم تحریک طالبان کا سربراہ حکیم اللہ محسود ہلاک ہو گیا تھا جس کے بعد تحریک کے نئے امیر ملا فضل اللہ نے حکومت کے ساتھ مذاکرات نہ کرنے اور سکیورٹی فورسز پر حملوں کا اعلان کیا تھا۔