رسائی کے لنکس

وزیراعظم کے خلاف ایک اور ’ایف آئی آر‘ درج


وزیراعظم نواز شریف (فائل فوٹو)
وزیراعظم نواز شریف (فائل فوٹو)

وزیراعظم نواز شریف نے پارلیمنٹ ہاؤس کے سامنے دھرنا دینے والی جماعتوں کی جانب اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ پوری قوم ایک طرف جب کہ اُن کے بقول مٹھی بھر لوگ ایک طرف ہیں۔

پاکستان کے دارلحکومت اسلام آؓباد کی پولیس نے وزیراعظم نواز شریف، وفاقی وزرا، وزیر اعلیٰ پنجاب شہباز شریف سمیت 11 افراد کے خلاف قتل اور اقدام قتل سمیت کئی دیگر دفعات کے تحت مقدمہ درج کر لیا ہے۔

واضح رہے کہ وفاقی دارالحکومت کی ایک عدالت نے وزیراعظم نوازشریف سمیت، وفاقی وزراء، وزیراعلیٰ پنجاب اور اعلیٰ پولیس اور ضلعی عہدیداروں کے خلاف مقدمہ درج کرنے کا حکم دیا تھا۔

حکومت مخالف احتجاج کرنے والی جماعت پاکستان تحریک انصاف نے ضلعی عدالت میں درخواست دی تھی کہ 31 اگست کو اسلام آباد میں پولیس کی طرف سے ان کے حامیوں کے خلاف کی گئی کارروائی میں تین افراد ہلاک ہوگئے تھے اور اس کارروائی کا مبینہ حکم وزیراعظم اور وزیرداخلہ نے دیا تھا۔

وزیراعظم کے خلاف اس نوعیت کا یہ تیسرا مقدمہ ہے۔

اس سے قبل حکومت کے خلاف سراپا احتجاج ایک اور جماعت پاکستان عوامی تحریک نے بھی 31 اگست کو مظاہرین پر پولیس کی شیلنگ اور مبینہ فائرنگ سے کارکنوں کی ہلاکت پر وزیراعظم کے خلاف مقدمہ درج کروایا تھا۔

جب کہ لاہور کے علاقے ماڈل ٹاؤن میں بھی عوامی تحریک کے کارکنوں کی ہلاکت کے مقدمے میں اُن کا نام شامل ہے۔

دریں اثنا پاکستان کے وزیراعظم نواز شریف نے کہا کہ موجودہ سیاسی بحران کے دوران پارلیمان میں موجود سیاسی جماعتوں نے اہم کردار ادا کیا۔ اُنھوں نے کہا کہ وہ اپنے دور اقتدار میں نظام میں اصلاحات کے لیے پر عزم ہیں۔

پاکستان واپسی سے قبل پیر کو لندن میں ذرائع ابلاغ کے نمائندوں سے گفتگو میں وزیراعظم نواز شریف نے کہا کہ پارلیمنٹ ہاؤس کے سامنے دھرنا دینے والی جماعتوں کی جانب اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ پوری قوم ایک طرف جب کہ اُن کے بقول مٹھی بھر لوگ ایک طرف ہیں۔

وزیراعظم کا کہنا تھا کہ دھرنا دینے والی جماعتوں نے اپنا کام کیا جس سے ملک کی معیشت کو نقصان پہنچا، تاہم اُن کے بقول حکومت معاشی بحالی کا اپنا کام جاری رکھے گی۔

عمران خان کی جماعت تحریک انصاف اور ڈاکٹر طاہر القادری کی جماعت عوامی تحریک کے اسلام آباد میں حکومت مخالف دھرنے جاری ہیں۔

حکومت اور مظاہرہ کرنے والی جماعتوں کے درمیان مذاکرات کا سلسلہ معطل ہے جس کی وجہ سے بظاہر اس معاملے کے جلد حل کے بارے میں شکوک و شبہات کا اظہار کیا جا رہا ہے۔

اس معاملے کے حل کے لیے سیاسی جماعتوں کے ایک جرگے کے سربراہ سراج الحق نے پیر کو عوامی تحریک کے سربراہ طاہر القادری سے ملاقات کی اور کہا کہ ’جرگے‘ کی کوشش ہے کہ آئین میں رہتے ہوئے اس مسئلے کا حل تلاش کیا جائے۔

’’ہم یہ بھی نہیں چاہتے ہیں کہ معاملہ اتنا طویل ہو جائے کہ کوئی ایسا بڑا حادثہ رونما ہو، جس سے ہمارے آئین کو نقصان پہنچے۔‘‘

وفاقی وزیر اطلاعات پرویز رشید نے احتجاج کرنے والی جماعتوں سے کہا کہ کسی بھی مسئلے کے حل کے لیے تشدد کی راہ اختیار کرنے سے گریز کرنا چاہیئے۔

’’اگر آپ لوگوں کی تربیت یہ کریں کہ وہ جمہوری طریقے سے تبدیلی کے راستے اختیار نا کریں بلکہ تشدد کے ذریعے تبدیلی کا راستہ اختیار کریں تو یہ تشدد آپ کے اپنے سامنے بھی کھڑا ہو سکتا ہے۔‘‘

اُدھر پیر کو اسلام آباد ہائی کورٹ نے احتجاج والی جماعتوں کی قیادت سے کہا ہے کہ کمسن بچوں کو دھرنوں میں نا لایا جائے اور جو بچے وہاں موجود ہیں اُن کو الگ کر دیا جائے۔

اسلام آباد ہائی کورٹ کے جج اطہر من اللہ نے اس بارے میں دائر درخواستوں کی سماعت کے دوران کہا کہ اب تک جو ریکارڈ ضلعی انتظامیہ نے عدالت کے سامنے پیش کیا ہے اس کے مطابق وفاقی دارالحکومت میں دھرنوں کی اجازت نہیں دی گئی تھی اس لیے بادی النظر میں یہ دھرنے غیر قانونی ہیں۔

احتجاج کرنے والی جماعت تحریک انصاف کے رہنما کی طرف سے وزیراعظم نواز شریف کی نااہلیت سے متعلق ایک درخواست کی ابتدائی سماعت عدالت عظمٰی میں ہوئی جس کے بعد سماعت آئندہ جمعرات تک ملتوی کر دی گئی۔

XS
SM
MD
LG