پاکستان کے جنو ب مغربی صوبے بلوچستان کو تربیت یافتہ فنی ماہرین کی قلت کا ہمیشہ سے سامنا رہا ہے لیکن شورش پسندی و دہشت گردی کے تناظر میں انسانوں کو خطرے سے محفوظ رکھنے والا ادارہ خاص طور پر بحران کا شکار نظر آتا ہے۔
صوبائی شہری دفاع کے زیر نگرانی بم ناکارہ بنانے والے ادارے میں تین سو اہل کار اور پچاس کے قریب رضاکار کام کر تے ہیں، لیکن بم ناکارہ بنانے کے شعبے کے ارکان کی تعداد چالیس ہے جن میں سے دس کے قریب گورنر، وزیراعلیٰ سیکریٹریٹ، صوبائی اسمبلی اور ہائیکورٹ میں فرائض انجام دے رہے ہیں۔
ادارے کی طرف سے بم ناکارہ بنانے والے اہلکاروں کو دو حفاظتی سوٹ دیے گئے ہیں لیکن اہلکاروں کے مطابق یہ سوٹ سو سے دو سو گرام کے اعلیٰ کوالٹی کے بارودی مواد کی شدت کو بھی برداشت کرنے کی صلاحیت نہیں رکھتے جبکہ تخریب کار کئی کلو گرام کے حساب سے بارودی مواد استعمال کرتے ہیں۔
انسانی زندگی بچانے کا یہ مشکل کام کرنے والے اہلکار بموں، بالخصوص دیسی ساختہ بم کو نا کارہ بناتے وقت ضروری حفاظتی آلات نہ ہو نے کے باعث اپنی زندگی کے بارے میں بھی سخت پر یشانی کا شکار ہیں۔
حکومت کا کہنا ہے کہ اس طرف خصوصی توجہ دی جا رہی ہے اور اس ادارے کے لیے تمام ضروری اقدام کیے جائیں گے۔
صوبائی وزیرعبدالرحیم زیارتوال نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں کہا کہ اس وقت بم ناکارہ بنانے والے ماہر کارکنوں کی کمی ہے لیکن اسے پورا کرنے کے لیے بھی اقدام کیے جا رہے ہیں۔
"ہمارے پاس واقعتاً اس قسم کے لوگوں کی کمی ہے کسی سے بھی ہو ہم یہ کارکنان حاصل کریں گے اور پولیس کے اندر سے لوگوں کو اس ٹر یننگ پر بھیجوائیں گے صرف ایک یا دو نہیں درجنوں کے حساب سے لوگوں کو تربیت دینا ہوگی، ہمارے پولیس کے پاس بھی ایسے اہل لوگ موجود ہیں، ٹر یننگ لے بھی سکتے ہیں اور ٹر یننگ حاصل بھی کر سکتے ہیں اور جو خلا آپ محسوس کر رہے ہیں اس خلاء کو ایسے نہیں چھوڑیں گے۔"
قدرتی وسائل سے مالامال یہ جنو ب مغربی صوبہ چھ ڈویژن اور بتیس اضلاع پرمشتمل ہے۔ صوبے کے تمام اضلاع میں کالعدم مذہبی اور عسکری تنظیموں کے عسکریت اور انتہا پسند دیسی بموں کے دھماکے کر تے رہتے ہیں۔ حالیہ برسوں میں اس ادارے کے سات اہلکار اب تک فرائض کی ادائیگی کے دوران زندگی کی بازی ہار چکے ہیں۔
بم ڈسپوزل کے اہلکاروں کے مطابق ڈویژنل ہیڈ کوارٹرز کے علاوہ کسی بھی ضلع میں شہری دفاع کا وجود ہی نہیں۔ ڈویژنل ہیڈکوارٹرز میں شہری دفاع کے دفاتر ضرور ہیں لیکن عملے کو کسی ناگہانی صورت حال سے نمٹنے کی تر بیت نہیں دی گئی۔
ادارے کے اہلکاروں کے بقول گزشتہ ہفتے کو ئٹہ کے نواحی علاقے میں فرنٹیر کور بلوچستان کی ایک خالی چوکی میں نا معلوم شرپسندوں کی طرف سے رکھے گئے بم کو نا کارہ بنانے کےلئے بم ڈسپوزل کے عملے کے پاس جدید حفاظتی آلات اور تر بیت یافتہ عملہ نہ ہونے کے باعث کئی گھنٹوں کے یہاں نصب بم کو ناکارہ بنایا جا سکا۔
ادارے کے حکام کا کہنا ہے کہ صوبائی حکومت نے درکار ضروری حفاظتی آلات کی فراہمی کی یقین دہانی ضرور کرائی ہے لیکن ان کی قیمتیں بہت زیادہ ہونے کے باعث صوبائی حکومت کے لئے ان کی بظاہر فراہمی ممکن نہیں ہوگی۔
اپنے شہریوں کی زندگی محفوظ بنا نے کےلئے ادارے کو روبوٹ، واٹر کینن گن، جیمرز، آئی ای ڈی سوٹ سیٹ، بمعہ جدید قسم کے آپریٹنگ ٹولز، اور ان تمام چیزوں کو لے جانے کے لئے بم یا بلٹ پروٹ گاڑی کی فراہمی بہت ضروری ہے۔
گزشتہ ڈیڑھ عشرے سے شورش اور بدامنی کے شکار اس صوبے میں گزشتہ نو سالوں کے دوران راکٹ فائرنگ ، دیسی ساختہ بموں کے 3200 واقعات میں 2200 افراد ہلاک اور 4100 زخمی ہو چکے ہیں۔