رسائی کے لنکس

کیا افغانستان کے موجودہ حالات میں پاکستان ازبکستان تجارتی معاہدے پر عمل ممکن ہے؟


فائل فوٹو
فائل فوٹو

پاکستان کے وزیرِ اعظم عمران خان کے دورہٴ ازبکستان میں دونوں ممالک کے مابین تجارت کے حوالے سے متعدد معاہدوں پر دستخط ہوئے ہیں جس کے تحت پاکستان افغانستان کے راستے وسطی ایشیائی ریاستوں کو اپنی بندرگاہوں تک رسائی دے گا۔ جب کہ اس کے بدلے پاکستان کے تاجر وسطی ایشیائی ممالک کی منڈیوں کو اپنی مصنوعات برآمد کر سکے گی۔

سیکیورٹی اور تجارت کے امور کے ماہرین یہ سوالات اٹھا رہے ہیں کہ افغانستان سے امریکہ و اتحادی افواج کے انخلا کے بعد پیدا ہونے والی صورتِ حال اور افغان طالبان کے مختلف علاقوں پر قبضوں میں تیزی سے اسلام آباد اور تاشقند کے مابین ہونے والے معاہدوں پر عمل درآمد کیسے ہو گا۔

پاکستان کے وزیرِ اعظم عمران خان 15 جولائی کو وفد کے ہمراہ تاشقند پہنچے جہاں ازبکستان کے وزیرِ اعظم عبداللہ اریپو نے ائیر پورٹ پر ان کا استقبال کیا۔

عمران خان کے ہمراہ وفاقی وزیرِ اطلاعات فواد چوہدری، وزیرِ داخلہ شیخ رشید احمد، وزیرِ خارجہ شاہ محمود قریشی، وفاقی وزیر برائے بحری امور علی حیدر زیدی، وزیرِ اعظم کے مشیر برائے قومی سلامتی معید یوسف، خیبر پختونخوا کے وزیر عاطف خان اور دیگر سرکاری حکام بھی تھے۔

پاکستان اور ازبکستان کے درمیان تعاون کے سمجھوتوں اور مفاہمت کی یادداشتوں پر دستخطوں کی تقریب کا انعقاد 15 جولائی کو ازبکستان کے دارالحکومت تاشقند میں ہوا جہاں دونوں ممالک کے مابین اسٹرٹیجک پارٹنرشپ کے معاہدے پر ازبکستان کے صدر شوکت مرزایوف اور وزیرِ اعظم عمران خان نے دستخط کیے۔

دونوں ممالک میں کون کونسے معاہدے ہوئے؟

پاکستان اور ازبکستان میں تجارت اور سرمایہ کاری سمیت مختلف شعبوں میں تعاون کے سمجھوتوں پر دستخط کیے گئے ہیں۔ اور باہمی ترجیحی تجارتی معاہدے کو تین ماہ میں حتمی شکل دینے اور دو طرفہ تجارت کا حجم مزید بڑھانے پر اتفاق کیا گیا ہے۔

یہ معاہدے تاشقند میں ازبکستان پاکستان بین الحکومتی کمیشن برائے تجارت،معاشی اور سائنسی و تکنیکی تعاون کے چھٹے اجلاس میں طے پائے۔

خبر رساں ادارے ’اے پی پی‘ کے مطابق دونوں ممالک نے اس بات پر اتفاق کیا کہ ازبکستان اور پاکستان کو آپس میں ملانے والی ٹرانس افغان راہداری دونوں ممالک میں باہمی تجارت کو فروغ دینے میں اہم کردار ادا کرے گی۔

دونوں ممالک نے ٹیکسٹائل انڈسٹری، زرعی مشینری کی تیاری، پھلوں اور سبزیوں کی پروسیسنگ اور پیکجنگ کے شعبے میں جوائنٹ وینچرز کا انتظام کر کے صنعتی تعاون کے شعبے میں اشتراک کو مزید بڑھانے پر اتفاق کیا۔

اس کے علاوہ توانائی، معدنی شعبے، زراعت، ٹرانسپورٹیشن اور مواصلات، افرادی قوت، تعلیم، سیاحت، سائنس اینڈ ٹیکنالوجی، ٹیکنالوجی پارکس، ہاؤسنگ اور کمیونل سروسز، شہروں کے درمیان اشتراک، موسمیات، ثقافت اور امور نوجوان میں تعاون کو مزید فروغ دینے پر اتفاق کیا گیا۔

'افغان ٹریڈ معاہدے پر تحفظات ہیں، اسمگلنگ روکنا ہو گی'
please wait

No media source currently available

0:00 0:04:09 0:00

تاشقند اور اسلام آباد میں ’ازبک-پاکستان اسپیشلائزڈ ایگزیبیشن‘ منعقد کرنے پر بھی اتفاق کیا گیا تاکہ برآمدی اشیا کو فروغ اور ادویہ سازی، ٹیکسٹائل، چمڑے، تعمیراتی سامان، زراعت، ٹرانسپورٹ اور لاجسٹک سروسز میں بڑی کمپنیوں کو راغب کرنے کے لیے سہولیات دی جائیں۔

وسطی ایشیا کی منڈیوں پر نظر

ازبکستان بھی افغانستان اور دیگر وسطی ایشیائی ممالک کی طرح لینڈ لاک (سمندر کے نہ) ہونے کی وجہ سے اپنی بین الاقوامی تجارت کے لیے ایران کے بندرگاہ بندر عباس پر انحصار کرتا ہے ۔

پاکستان کی کوشش ہے کہ وسطی ایشیائی ریاستیں اس کی بندرگاہوں، خصوصاََ بلوچستان میں گوادر کے ڈیپ سی پورٹ کو استعمال کریں تاکہ خطے میں اس کی اہمیت بڑھ سکے۔

رواں برس فروری میں پاکستان، افغانستان اور ازبکستان کے مابین ایک اعلیٰ سطح کا اجلاس منعقد ہوا تھا جس میں ٹرانس افغان ریل سروس کی تعمیر پر رضا مندی ظاہرہ کی گئی تھی۔

پاکستان کے وزیرِ اعظم کے مشیر برائے تجارت وسرمایہ کاری عبدالرزاق داؤد نے گزشتہ ماہ وائس اف امریکہ کو اسلام آباد میں بتایا تھا کہ ازبکستان کے ذریعے پاکستان کی وسطی ایشیائی ریاستوں تک رسائی ممکن ہو جائے گی اور بقول ان کے 90 ارب ڈالرز کی تجارت کے لیے راستے کھل سکتے ہیں۔

عبد الرزاق داؤد نے بتایا تھا کہ یورپ کی طرز پر پاکستان اقوامِ متحدہ کے بین الاقوامی روڈ ٹرانسپورٹ کنونشن (یا ٹی آئی آر کنونشن) کے تحت کسٹم ٹرانزٹ سسٹم کے ذریعے وسطی ایشیائی روٹ پر ایسا نظام قائم کرنا چاہتا ہے کہ ایک جگہ سے رجسٹریشن ہونے اور دستاویزات بننے کے بعد دیگر ممالک بھی اس کو تسلیم کریں تا کہ بغیر کسی رکاوٹ کے تمام ممالک باہمی طور پر تجارت کر سکیں۔

ٹی آئی آر کنونشن ایک قانونی فریم ورک ہے جو رکن ممالک کی ٹرانزٹ ٹریڈ کے لیے جانے والے ٹرکوں کو بغیر کسٹمز ڈیوٹی اور ٹیکس کے آمد و رفت میں سہولت فراہم کرتا ہے۔ پاکستان اس معاہدے میں 2017 شامل ہوا تھا۔

ٹی آئی آر کنونشن کے تحت فراہم کردہ مراعات کے ذریعے پاکستانی ٹرک افغانستان، وسطی ایشیا اور دیگر ممالک حتیٰ کہ یورپ کا سفر بلا روک ٹوک کر سکتے ہیں۔

تجرباتی طور پر ٹرکوں کا تبادلہ

ٹی آئی آر کنونشن کے تحت دونوں ممالک نے افغانستان کے مختلف روٹس، امن و امان کی صورتِ حال جانچنے اور کابل اور اسلام اباد کے مابین تلخ سفارتی تعلقات کے سبب رکاوٹوں کا جائزہ لینے کے لیے سامان سے لدھے ٹرکوں کا تجرباتی طور پر تبادلہ کیا ہے۔

کراچی سے ادویات سے بھرا ایک ٹرک نو اپریل کو روانہ ہوا تھا جو افغانستان اور ازبکستان سے گزرتے ہوئے چار مئی کو تاشقند پہنچا تھا۔

اسی طرح ازبکستان کا ایک ٹرک چمڑے کی مصنوعات لے کر تاشقند سے نو مئی کو روانہ ہوا تھا جو افغانستان سے گزرتے ہوئے 11 مئی کو پاکستان کی سرحد طورخم پہنچا تھا جہاں سے یہ سامان 13 مئی کو فیصل آباد پہنچایا گیا تھا۔

اس منصوبے کو امریکہ کے امدادی ادارے ’یو ایس ایڈ‘ کی ’پاکستان ریجنل اکنامک انٹیگریشن‘ پروگرام کے تحت مالی اور تکنیکی معاونت حاصل ہے۔

خیبر پختونخوا کے صنعت کاروں کی تنظیم سرحد چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹریز کے رہنما شاہد حسین افغانستان اور ازبکستان میں تجارت کا تجربہ رکھتے ہیں اور تاشقند جانے والے تاجروں کے وفد میں بھی شامل تھے۔

وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے شاہد حسین نے کہا کہ ازبکستان اپنا تجارتی سامان ترکمانستان کے ذریعے ایران کی بندرگاہ بندر عباس کے ذریعے برآمد کرتا ہے جو بہت لمبا روٹ ہے۔

گوادر بندرگاہ کے راستے افغان تجارت
please wait

No media source currently available

0:00 0:02:08 0:00

ان کے بقول افغانستان کے ذریعے پاکستان کے شہر کراچی اور گوادر کی بندرگاہوں تک کا روٹ ایران کے بندر عباس کے روٹ کے مقابلے میں لگ بھگ 2800 کلومیٹر کم ہے۔

انہوں نے کہا کہ ایران ازبکستان سے 540 ڈالر فی ٹرک چارج کرتا ہے جب کہ بقول ان کے پاکستان نے انہیں 200 ڈالرز فی ٹرک کی پیشکش کی ہے۔

افغانستان میں بدامنی بڑی رکاوٹ

پاکستان اور ازبکستان میں معاہدہ ایسے وقت میں طے پایا ہے جب افغانستان سے امریکہ اور اتحادی افواج کا انخلا ہو رہا ہے اور مختلف علاقوں خاص طور پر پڑوسی ممالک کے ساتھ سرحدی گزرگاہوں پر افغان طالبان قابض ہو چکے ہیں۔

سیکیورٹی ماہرین اس خدشے کا اظہار کر رہے ہیں کہ افغانستان پر طالبان قابض ہو سکتے ہیں یا خانہ جنگی جیسی صورتِ حال پیدا ہو سکتی ہے۔

افغان طالبان اب تک افغانستان کے جن پڑوسی ممالک کے ساتھ اہم بارڈر کراسنگ پوائنٹس پر قبضہ کر چکے ہیں ان میں پاکستان کے ساتھ اسپین بولدک، ایران کے ساتھ اسلام قلعہ، تاجکستان کے ساتھ شیر خان بندر اور چین کے ساتھ واخان کوریڈور شامل ہیں جو تجارت کے لیے استعمال ہوتی ہے۔

پاکستان اور افغانستان کے تاجروں کی مشترکہ تنظیم کے کوئٹہ میں مقیم ایک رہنما نے وائس آف امریکہ کو نام نہ شائع کرنے کی شرط پر بتایا کہ جس بھروسے اور خود اعتمادی کے ساتھ پاکستان اور ازبکستان کی حکومتوں نے تاشقند میں تجارتی معاہدے کیے اس سے بقول ان کے یوں لگ رہا ہے کہ دونوں ممالک نے افغان طالبان کو کارگو روٹ کی سیکیورٹی کے حوالے سے اعتماد میں لیا ہو گا۔

افغانستان کے ساتھ تجارت کرنے کی تجربے کی بنیاد پر انہوں نے کہا کہ امن وامان کے مخدوش حالت میں ممالک کے درمیان تجارت ناممکن ہو جاتی ہے۔ حالات خراب ہونے کی وجہ سے افغانستان میں شاہراہوں پر مختلف گروہ اور مسلح گروہوں کے سردار اپنی چیک پوسٹیں بنائیں گے جہاں ٹرک ڈرائیور کو بڑی رقم بطور بھتہ دینی پڑے گی یا کچھ واقعات میں لاکھوں ڈالروں سے لدا مال سے بھرا ٹرک اغوا بھی ہو سکتا ہے جس سے تجارت پر منفی اثرات مرتب ہوں گے۔

تاشقند کے اسی دورے کے دوران 'وسطی اور جنوبی ایشیائی خطے میں رابطہ‘ کے عنوان سے منعقدہ بین الاقوامی کانفرنس منعقد ہوئی جس میں پاکستان کے وزیرِ اعظم عمران خان اور افغانستان کے صدر اشرف غنی کے ساتھ ساتھ ازبکستان کے صدر جب کہ سعودی عرب، چین، بھارت اور روس کے وزرائے خارجہ اور وسطی ایشیا کی حکومتوں کے رہنما شریک تھے۔

اشرف غنی نے پاکستان پر الزام عائد کیا کہ پاکستان سے 10 ہزار جنگجو افغانستان میں داخل ہوئے ہیں۔ اگر بات چیت نہ ہوئی تو افغان حکومت طالبان کا مقابلہ کرے گی کیوں کہ وہ سمجھتے ہیں کہ یہ امن کے لیے آخری کوشش ہے۔

اس کے جواب میں عمران خان نے اشرف غنی کے الزامات کو بے بنیاد قراردیتے ہوئے کہا کہ افغانستان کی صورتِ حال کے لیے پاکستان کو ذمہ دار ٹھیرانا نا انصافی ہے کیوں کہ دنیا میں اگر افغان امن کے لیے کوئی ملک کوشش کر رہا ہے تو وہ پاکستان ہے جس کے لیے اس نے سب سے زیادہ قربانیاں بھی دی ہیں۔

اس ساری صورتِ حال پر کوئٹہ کے تاجر رہنما کا کہنا تھا کہ خطے میں امن کے قیام کے لیے یہ کوشش بھی الزامات سے ناکام ہو گئی ہے۔ بقول ان کے اب یوں لگ رہا ہے کہ امریکہ اور افغان طالبان میں جاری رہنے والے مذاکرات بقول ان کے مستقبلِ قریب میں پاکستان اور افغانستان کی حکومتوں کے مابین ہوں گے۔

  • 16x9 Image

    ضیاء الرحمٰن خان

    ضیاء الرحمٰن کراچی میں مقیم ایک انویسٹیگیٹو صحافی اور محقق ہیں جو پاکستان کے سیکیورٹی معاملات، سیاست، مذہب اور انسانی حقوق کے موضوعات پر لکھتے ہیں۔  

XS
SM
MD
LG