پاکستان کے قبائلی علاقے وزیرستان میں بدھ کو ہونے والے ایک بم دھماکے میں خواتین اور بچے سمیت چھ افراد ہلاک ہو گئے۔
مقامی ذرائع نے بتایا کہ شمالی و جنوبی وزیرستان کی سرحد پر واقع علاقے شوال میں ایک مقامی شدت پسند کمانڈر عالم دین محسود اپنے گھر میں ایک مارٹر گولے سے بارودی مواد علیحدہ کرنے کی کوشش کر رہا تھا کہ اس میں اچانک زوردار دھماکا ہو گیا۔
دھماکا اس قدر شدید تھا کہ گھر کا ایک حصہ مکمل طور پر منہدم ہوگیا جب کہ یہاں موجود چار خواتین اور ایک بچہ بھی موقع پر ہی ہلاک ہوگئے۔
گھر میں موجود کئی بچے اور خواتین زخمی بھی ہوئیں۔ شدت پسندوں کے گھروں میں چھپائے گئے دیسی ساخت کے بموں اور بارودی مواد میں اس سے قبل بھی ایسے حادثاتی دھماکے ہوتے رہے ہیں جو کئی انسانی جانوں کے ضیاع کا سبب بنے۔
افغان سرحد سے ملحقہ ان علاقوں میں القاعدہ سے منسلک شدت پسندوں نے محفوظ پناہ گاہیں قائم کر رکھی ہیں جہاں سے یہ اکثر سکیورٹی فورسز پر حملے اور ملک کے مختلف علاقوں میں تخریبی کارروائیاں کرتے رہتے ہیں۔
تاہم حکومت کے ساتھ مذاکراتی عمل شروع ہونے کے بعد کالعدم شدت پسند تنظیم تحریک طالبان پاکستان نے یک طرفہ طور پر ایک ماہ کے لیے فائربندی کا اعلان کیا تھا۔
اس اعلان کے باوجود حالیہ دنوں میں تشدد کے واقعات رونما ہوتے رہے ہیں۔ بدھ ہی کو پشاور کے علاقے سرکی گیٹ میں ایک دیسی ساختہ بم کے دھماکے سے ایک خاتون سمیت کم ازکم پانچ افراد زخمی ہوگئے۔
تاحال یہ معلوم نہیں ہوسکا کہ یہ بم کس نے نصب کیا تھا۔
گزشتہ جمعہ کو پشاور کے قریب ایک خودکش بم حملے میں 11 افراد ہلاک اور 20 سے زائد زخمی ہو گئے تھے۔
اس واقعے کی ذمہ داری ایک غیر معروف تنظیم احرار الہند نے قبول کی تھی اور اس کا دعوی ہے کہ وہ ماضی میں طالبان کا حصہ رہ چکی ہے۔
لیکن طالبان نے ایسی کسی تنظیم سے روابط یا شناسائی سے انکار کرتے ہوئے کہا ہے کہ اگر حکومت اس کے خلاف کارروائی کرنا چاہے تو تحریک طالبان کو اس پر کوئی اعتراض نہیں ہو گا۔
مقامی ذرائع نے بتایا کہ شمالی و جنوبی وزیرستان کی سرحد پر واقع علاقے شوال میں ایک مقامی شدت پسند کمانڈر عالم دین محسود اپنے گھر میں ایک مارٹر گولے سے بارودی مواد علیحدہ کرنے کی کوشش کر رہا تھا کہ اس میں اچانک زوردار دھماکا ہو گیا۔
دھماکا اس قدر شدید تھا کہ گھر کا ایک حصہ مکمل طور پر منہدم ہوگیا جب کہ یہاں موجود چار خواتین اور ایک بچہ بھی موقع پر ہی ہلاک ہوگئے۔
گھر میں موجود کئی بچے اور خواتین زخمی بھی ہوئیں۔ شدت پسندوں کے گھروں میں چھپائے گئے دیسی ساخت کے بموں اور بارودی مواد میں اس سے قبل بھی ایسے حادثاتی دھماکے ہوتے رہے ہیں جو کئی انسانی جانوں کے ضیاع کا سبب بنے۔
افغان سرحد سے ملحقہ ان علاقوں میں القاعدہ سے منسلک شدت پسندوں نے محفوظ پناہ گاہیں قائم کر رکھی ہیں جہاں سے یہ اکثر سکیورٹی فورسز پر حملے اور ملک کے مختلف علاقوں میں تخریبی کارروائیاں کرتے رہتے ہیں۔
تاہم حکومت کے ساتھ مذاکراتی عمل شروع ہونے کے بعد کالعدم شدت پسند تنظیم تحریک طالبان پاکستان نے یک طرفہ طور پر ایک ماہ کے لیے فائربندی کا اعلان کیا تھا۔
اس اعلان کے باوجود حالیہ دنوں میں تشدد کے واقعات رونما ہوتے رہے ہیں۔ بدھ ہی کو پشاور کے علاقے سرکی گیٹ میں ایک دیسی ساختہ بم کے دھماکے سے ایک خاتون سمیت کم ازکم پانچ افراد زخمی ہوگئے۔
تاحال یہ معلوم نہیں ہوسکا کہ یہ بم کس نے نصب کیا تھا۔
گزشتہ جمعہ کو پشاور کے قریب ایک خودکش بم حملے میں 11 افراد ہلاک اور 20 سے زائد زخمی ہو گئے تھے۔
اس واقعے کی ذمہ داری ایک غیر معروف تنظیم احرار الہند نے قبول کی تھی اور اس کا دعوی ہے کہ وہ ماضی میں طالبان کا حصہ رہ چکی ہے۔
لیکن طالبان نے ایسی کسی تنظیم سے روابط یا شناسائی سے انکار کرتے ہوئے کہا ہے کہ اگر حکومت اس کے خلاف کارروائی کرنا چاہے تو تحریک طالبان کو اس پر کوئی اعتراض نہیں ہو گا۔