پاکستان کی عدالت عظمٰی میں پاناما لیکس سے متعلق دائر درخواستوں کی سماعت جب منگل کو شروع ہوئی تو وزیراعظم نواز شریف کے صاحبزادوں حسین اور حسن نواز کے وکیل سلمان اکرم راجہ نے اپنے دلائل جاری رکھے۔
سلمان اکرم راجہ نے اپنے دلائل میں کہا کہ لندن فلیٹس شریف خاندان نے 2006ء میں خریدے تھے۔
اُنھوں نے کہا کہ 1993 سے 1996 کے دوران لندن فلیٹس قطر کے شاہی خاندان الثانی نے آف شور کمپنیوں کے ذریعے خریدے تھے۔
جسٹس آصف سعید کھوسہ کی سربراہی میں قائم پانچ رکنی بینچ نے سلمان اکرم راجہ سے استفسار کیا کہ حسین اور حسن نواز کب سے لندن فلیٹس میں رہ رہے ہیں، تو اُنھوں نے کہا کہ 1993 میں جب حسین اور حسن نواز زیر تعلیم تھے تب سے وہ وہاں رہ رہے ہیں۔
سلمان اکرم راجہ نے کہا کہ لندن میں قطر کے الثانی خاندان کے بہت سے فلیٹس ہیں اور خاندانی مراسم کی بنیاد پر وہ فلیٹس شریف خاندان کے زیراستعمال رہے۔
واضح رہے کہ وزیراعظم نواز شریف کے صاحبزادوں کے وکیل کا یہ موقف ہے کہ لندن میں شریف خاندان کے زیر ملکیت فلیٹس کے لیے رقم پاکستان سے منتقل نہیں ہوئی اور اپنے اس موقف کو درست ثابت کرنے کے لیے انھوں نے قطر کے ایک شہزادے کا خط بطور دستاویزی ثبوت بھی عدالت عظمیٰ میں پیش کیا ہے۔
قطر کے سابق وزیراعظم و وزیر خارجہ شہزادہ حمد بن جاسم بن جبر الثانی کے خط کے مطابق 1980 میں نواز شریف کے والد میاں محمد شریف نے الثانی خاندان کے ساتھ جائیداد کی خرید و فروخت کے کاروبار میں سرمایہ کاری کی تھی۔
شریف خاندان کا موقف ہے کہ لندن میں فلیٹس کی خریداری کے لیے قطر کے شاہی خاندان کے ساتھ ہونے والی کاروباری شراکت سے حاصل کردہ رقم خرچ ہوئی۔
ایک مرکزی درخواست گزار جماعت تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان نے کہا کہ وزیراعظم نواز شریف نے پاناما لیکس کے معاملے کے بعد ایوان میں جو تقریر کی اُس میں قطر کی سرمایہ کاری کا کوئی ذکر نہیں تھا۔
عمران خان کا موقف رہا کہ شریف خاندان کے زیر استعمال لندن کے ایک مہنگے علاقے مے فیئر میں واقع فلیٹس کی خریداری کے لیے رقم پاکستان سے منتقل ہوئی، تاہم حکمران جماعت مسلم لیگ (ن) کے عہدیدار ان الزامات کو مسترد کرتے ہوئے کہتے آئے ہیں کہ پاکستانی سے کسی طرح کی ’منی لانڈرنگ‘ نہیں کی گئی۔