پاکستان کے وزیراعظم نواز شریف کے بچوں کے وکیل نے عدالت عظمیٰ کو بتایا کہ لندن میں شریف خاندان کی زیر ملکیت چار فلیٹس کے لیے رقم پاکستان سے منتقل نہیں ہوئی اور اپنے اس موقف کی دلیل کے لیے انھوں نے قطر کے ایک شہزادے کا خط بطور دستاویزی ثبوت پیش کیا جس میں کہا گیا ہے کہ فلیٹس کی خریداری کے لیے قطر کے شاہی خاندان کے ساتھ ہونے والی کاروباری شراکت سے حاصل کردہ رقم خرچ ہوئی۔
پاناما لیکس کے معاملے پر وزیراعظم اور ان کے بچوں کے خلاف دائر درخواستوں کی سماعت منگل کو سپریم کورٹ کے چیف جسٹس انور ظہیر جمالی کی سربراہی میں پانچ رکنی بینچ نے کی جس میں وزیراعظم کے تینوں بچوں کے وکیل اکرم شیخ پیش ہوئے۔
انھوں نے قطر کے سابق وزیراعظم و وزیر خارجہ شہزادہ حمد بن جاسم بن جبر الثانی کا ایک تحریری بیان عدالت کے روبرو پیش کیا۔
خط میں قطری شہزادے کا کہنا تھا کہ 1980ء کی دہائی میں نواز شریف کے والد (میاں محمد شریف) نے الثانی خاندان کے جائیداد کی خریدو فروخت کے کاروبار میں ان کے خیال میں ایک کروڑ 20 لاکھ درہم سرمایہ کاری کی جو میاں شریف نے دبئی میں اپنا کاروبار فروخت کر کے حاصل کیے تھے۔
شہزادہ حمد کے بقول لندن کے چار فلیٹس دونوں شراکت داروں نے منافع سے خریدے تھے جو دو آف شور کمپنیوں میں رجسٹرڈ تھے اور ان کے خیال میں میاں شریف نے اپنی زندگی میں کاروبار نواز شریف کے بیٹے حسین نواز کو دینے کی خواہش کی تھی لہذا (2004ء میں ان کے انتقال کے بعد) 2006 میں الثانی خاندان اور حسین نواز کے درمیان کاروباری معاملات طے پانے کے بعد یہ فلیٹس حسین نواز کو ملے۔
بظاہر اس خط کے ذریعے ان سوالوں کا جواب دینے کی کوشش کی گئی کہ اس جائیداد کی خریداری کے لیے رقم کہاں سے آئی اور اگر یہ پاکستان سے منتقل ہوئی تو کیسے۔
اکرم شیخ نے سیکڑوں صفحات پر مشتمل دستاویزات بھی عدالت عظمیٰ میں جمع کروائیں جن میں نواز شریف کی ٹیکس ادائیگیوں، زمین اور فیکٹریوں سے متعلق تفصیلات بھی لف تھیں۔
بینچ میں شامل جسٹس آصف سعید کھوسہ نے اکرم شیخ سے کہا کہ اس خط میں سنی سنائی باتوں اور خیالات کا اظہار کیا گیا ہے تو کیا ان کے پاس رقم کی فراہمی کا کوئی اور ثبوت ہے۔
اس پر وکیل کا کہنا تھا کہ مزید تفصیلات جمع کروانے کے لیے وقت دیا جائے۔
ادھر وزیراعظم کے خلاف درخواست دائر کرنے والی جماعت پاکستان تحریک انصاف کے وکیل حامد خان نے بھی عدالت میں دستاویزات جمع کروائیں جن میں اخبارات میں شائع ہونے والی خبروں کے تراشے بھی شامل تھے۔
بینچ میں شامل جسٹس عظمت سعید نے کہا کہ اخباری تراشوں کو شواہد کے طور پر قبول نہیں کیا جاسکتا۔
بعد ازاں معاملے کی سماعت 17 نومبر تک ملتوی کر دی گئی۔