پاکستان کی عدالت عظمٰی کے پانچ رکنی بینچ نے پاناما لیکس سے متعلق دائر درخواستوں کی سماعت مکمل ہونے پر جمعرات کو فیصلہ محفوظ کر لیا ہے۔
پانچ رکنی بینچ کے سربراہ جسٹس آصف سعید کھوسہ نے وکلا کے دلائل مکمل ہونے پر کہا کہ کوئی مختصر یا ’شارٹ آرڈر‘ جاری نہیں کیا جائے گا، بلکہ اُن کے بقول عدالت تفصیلی فیصلہ ہی جاری کرے گی۔
عدالت عظمیٰ کے بینچ کی طرف سے یہ تو نہیں بتایا گیا کہ فیصلہ کب سنایا جائے گا، تاہم جسٹس آصف سعید کھوسہ کا کہنا تھا کہ فیصلہ مناسب وقت پر سنایا جائے گا۔
سپریم کورٹ کے بینچ کا کہنا تھا کہ یہ ایسا مقدمہ نہیں ہے، جس کا مختصر فیصلہ سنایا جائے۔
جسٹس آصف سعید کھوسہ نے کہا کہ آئین اور قانون کی روشنی میں عدالت کی طرف سے ایسا فیصلہ سنایا جائے گا، جس کے بارے میں 20 سال بعد بھی لوگ کہیں کہ فیصلہ قانون و انصاف کے مطابق تھا۔
گزشتہ سال اکتوبر میں سپریم کورٹ نے اس معاملے میں دائر درخواستوں پر سماعت کے لیے پانچ رکنی بینچ تشکیل دیا تھا، لیکن دسمبر میں اس وقت کے چیف جسٹس انور ظہیر جمالی کی مدت ملازمت ختم ہونے پر جسٹس آصف سعید کھوسہ کی سربراہی میں نیا بینچ تشکیل دیا گیا تھا۔
جمعرات کو اختتامی دلائل دیتے ہوئے تحریک انصاف کے وکیل نعیم بخاری نے کہا کہ پاناما لیکس میں ہونے والے انکشافات کے بعد وزیراعظم نے جو تقاریر کیں اُن میں ’غلط بیانی‘ کی گئی اور نعیم بخاری نے استدعا کی کہ وزیراعظم نواز شریف کو نا اہل قرار دیا جائے۔
نعیم بخاری نے اپنے دلائل میں یہ بھی کہا کہ عدالت عظمیٰ ملک کے ایک سابق وزیراعظم یوسف رضا گیلانی کو بھی نا اہل قرار دے چکی ہے۔
تاہم پانچ رکنی بینچ میں شامل جسٹس اعجاز افضل نے کہا کہ یوسف رضا گیلانی نے سپریم کورٹ کے احکامات پر عمل درآمد نہیں کیا تھا، اس لیے اُنھیں نا اہل قرار دیا گیا۔ جسٹس اعجاز کا کہنا تھا کہ یوسف رضا گیلانی کے معاملے کو حالیہ مقدمے سے نہیں جوڑا جا سکتا۔
اس دوران عدالت نے نعیم بخاری سے پوچھا گیا کہ جو دستاویزات اُنھوں نے سپریم کورٹ میں جمع کروائیں، کیا اُن کی تصدیق کروائی گئی تھی تو تحریک انصاف کے وکیل نے اس کا جواب نفی میں دیا۔
جس پر عدالت کا کہنا تھا کہ بغیر تصدیق کے جمع کروائی گئی دستاویزات کو اس مقدمے کے ریکارڈ کا حصہ کیسے بنایا جا سکتا ہے۔
پانچ رکنی بینچ کی طرف سے کہا گیا کہ پاناما لیکس سے متعلق دائر درخواستوں میں لگ بھگ 26000 دستاویزات عدالت میں جمع کروائی گئیں لیکن 99 فیصد سے زائد متعلقہ نہیں ہیں یا ’ردی کی ٹوکری کے لیے ہیں۔‘
جمعرات کو عوامی مسلم لیگ کے سربراہ شیخ رشید اور جماعت اسلامی کے وکیل توفیق آصف نے بھی سوالات کے جوابات دیئے۔
’آف شور‘ کمپنیوں کے ذریعے بیرون ملک اثاثے اور جائیدادیں بنانے سے متعلق پاناما کی ایک لافرم موساک فونسیکا کی معلومات گزشتہ سال منظر عام پر آئی تھیں۔
پاناما پیپرز میں پاکستانی وزیراعظم نواز شریف کے دو بیٹوں حسین اور حسن نواز کے علاوہ بیٹی مریم نواز کے نام سامنے آنے کے بعد پاکستان میں حزب مخالف کی جماعتوں خاص طور تحریک انصاف نے وزیراعظم کو آڑے ہاتھوں لیا اور اس بارے میں عدالت عظمٰی میں درخواستیں بھی دائر کی گئیں۔
تاہم حکمران جماعت کا موقف رہا ہے کہ وزیراعظم کا پاناما پیپرز میں نام نہیں ہے اور اُن کے بچے قانون کے مطابق بیرون ملک کاروبار کرتے ہیں۔