رسائی کے لنکس

والدین کے سائے سے محروم بلند حوصلہ لڑکیوں کی عید


والدین کے سائے سے محروم بلند حوصلہ لڑکیوں کی عید
please wait

No media source currently available

0:00 0:05:06 0:00

پاکستان میں بہت سے بچے ایسے بھی ہیں جو نا صرف اپنے گھروں سے محروم ہیں بلکہ اُن کے والدین بھی اس دنیا میں نہیں ہیں۔ ایسے بچوں کی ایک بڑی تعداد پاکستان کے مختلف حصوں میں مخیر حضرات کی طرف سے بنائے گئے خصوصی مراکز میں رہتے ہیں۔

عید کا تہوار دنیا کے کسی بھی حصے میں رہنے والے مسلمانوں کے لیے خوشی کا پیغام لے کر آتا ہے اور اس دن کا خاص طور پر بچوں کو شدت سے انتظار رہتا ہے۔

اس دن ہر کسی کی یہ خواہش ہوتی ہے کہ تہوار اپنے گھر والوں کے ساتھ منایا جائے۔ لیکن پاکستان میں بہت سے بچے ایسے بھی ہیں جو نا صرف اپنے گھروں سے محروم ہیں بلکہ اُن کے والدین بھی اس دنیا میں نہیں ہیں۔ ایسے بچوں کی ایک بڑی تعداد پاکستان کے مختلف حصوں میں مخیر حضرات کی طرف سے بنائی گئے ’Orphan Houses‘ یعنی یتیم بچوں کے لیے بنائے گئے خصوصی مراکز میں رہتی ہے۔

پاکستان کے وفاقی دارالحکومت کے جڑواں شہر راولپنڈی میں صبا ہومز کے نام سے ایک ایسے ہی ’Orphan House ‘ میں عید کی آمد سے کئی روز قبل ہی تیاریاں جاری تھیں۔ پاکستانی نژاد امریکی شہری صغیر اسلم اور اُن کی اہلیہ بشریٰ اسلم نے 2005 میں یتیم بچیوں کے لیے یہ ادارہ قائم کیا تھا۔

‘‘2005ء میں پاکستان میں بہت زبردست زلزلہ آیا تھا ہمارے جو فاؤنڈنگ چیئرمین صاحب ہیں وہ ریلیف کا وہاں پر پراجیکٹ کر رہے تھے ان کے علم میں آیا کہ بہت ساری ایسی بچیاں ہیں جو یتیم ہوئی ہیں زلزلے کے دوران تو انھوں نے ان کے لیے گھر بنانے کا سوچا تو 2005ء اس صبا ہاؤس قائم کیا۔۔۔ اس میں اب سندھ، پنجاب، راولپنڈی پوٹھوہار ڈویژن اور شمالی علاقاجات، کشمیر ہر طرف سے بچیاں ہیں یہاں۔’’

اقوام متحدہ کے ادارہ صبا ہومز میں مقیم بچیاں صغیر اسلم اور اُن کی اہلیہ بشریٰ اسلم کو ہی اپنے والدین سمجھتی ہیں۔

‘‘لائیٹنگ کرتے ہیں گھر سجاتے ہیں عید مناتے ہیں جس طرح لوگ مناتے ہیں مہندی لگاتے ہیں کھانے بھی اپنی مرضی کا پکاتے ہیں۔’’

صبا ہومز کے منیجر محمد عاصم کہتے ہیں کہ اُن کی یہ کوشش ہوتی ہے کہ یہاں مقیم بچیوں کو کسی کمی احساس نا ہو۔

‘‘اگر کسی بچی کے ماں یا باپ نہیں ہیں تو کیوں اس سے ایسا سلوک کیا جائے۔۔۔۔ان کو کسی کے گھر کام کرنا پڑتا ہے یا ان کو اپنے رشتہ داروں کی ڈانٹ ڈپٹ سہ کر اس کے اوپر ان کو بھروسہ کرنا پڑتا ہے اور وہ ان کے گھر میں ان کے پاس رہتی ہیں۔۔۔۔۔ہماری زندگی کا مقصد یہ ہے کہ آپ نے دوسرے لوگوں کی خدمت کرنی ہے اور ان کے کام آنا ہے۔’’

صوما شفیق اور انم کہتی ہیں کہ دوسرے بچوں کو بھی اپنی خوشی میں شامل کر کے اُنھیں اچھا لگتا ہے۔

صوما شفیق کا کہنا تھا کہ ‘‘گزشتہ سال ہماری امی پاکستان میں تھیں اس مرتبہ وہ یہاں نہیں ہیں ہم نصرت آنٹی اور روم میٹس کے ساتھ منا رہے ہیں اور ویسے ہم ابو امی کے ساتھ مناتے ہیں پہلی مرتبہ ہم امی ابو کے ساتھ نہیں منا رہے۔’’

انم کہتی ہیں کہ ‘‘ابو امی کہتے ہیں جب آپ کھا رہی ہوتی ہیں تو آپ یہ سوچا کریں کہ آپ کھا رہی ہو تو کسی دوسرے کو بھی مل جائے تو یہ سوچ کر کھاؤ تو میں یہ سوچتی ہوں کہ جب ہم کسی کو کھلا رہے ہوتے ہیں تو اس میں اتنی خوشی محسوس ہو رہی ہوتی ہے کہ ہم کھا رہے ہیں تو دوسرا بھی تو کھا رہا ہے تو بھوکا تو نہیں رہ رہا اللہ تعالیٰ نے ہمیں توفیق دی کہ ہم کسی کو کھلا سکیں۔’’

منیجر محد عاصم کہتے ہیں کہ عید صرف صبا ہومز ہی میں نہیں منائی جاتی بلکہ یہاں رہنے والی بچیوں کو سیر کے لیے باہر بھی لے جایا جاتا ہے۔

‘‘یہ اپنی پسند کے کپڑے لیتے ہیں یہ اپنی پسند کے جوتے لیتے ہیں اور ہم ان کو بہت ساری جگہوں پر لے کر جاتے ہیں تو تاریخی جگہیں ہوتی ہیں جو پارکس ہوتے ہیں یا کوئی ایسا ہل اسٹیشن ہوتا ہے جہاں پر جا کر ان کو خوب سیروتفریح کرواتے ہیں۔’’

یتیم بچیوں کے لیے قائم صبا ہومز یا اس طرح کے دیگر فلاحی ادارے ماں باپ کے سائے محروم بچوں نا صرف رہنے کے لیے چھت فراہم کرتے ہیں بلکہ یہاں رہنے والے بچے اور بچیاں خود کو ایک خاندان تصور کرتی ہیں۔

XS
SM
MD
LG