رسائی کے لنکس

حکومت پر دباؤ بڑھانے کے لیے اپوزیشن جماعتوں کے اتحاد کا قیام


پاکستان کی قومی اسمبلی کے قائد حزب اختلاف میڈیا سے گفتگو کر رہے ہیں۔ اگست 2018
پاکستان کی قومی اسمبلی کے قائد حزب اختلاف میڈیا سے گفتگو کر رہے ہیں۔ اگست 2018

پاکستان کی اپوزیشن جماعتوں نے حکومت پر ایوان کے اندر اور باہر دباؤ بڑھانے کے لیے مشترکہ کمیٹی کے قیام پر اتفاق کر لیا ہے۔ یہ کمیٹی حکومت سے بات کرے گی۔

سابق صدر آصف علی زرداری کہتے ہیں کہ اپوزیشن جماعتوں کا اتحاد قائم ہو گیا ہے۔ دوسری جانب وزیراعظم عمران خان کا کہنا ہے کہ اپوزیشن کی طرف سے واک آؤٹ دباؤ کا حربہ ہے تاکہ این آر او لیا جا سکے۔ اس معاملہ پر اپوزیشن نے بھرپور ردعمل دیا ہے۔

منگل کا دن پارلیمنٹ ہاؤس میں ہنگامہ خیز رہا اور دن بھر حکومت اور اپوزیشن کے ارکان ایک دوسرے پر الزامات لگاتے رہے۔ دن کا آغاز وزیراعظم عمران خان کے ٹویٹ سے ہوا جس میں انہوں نے کہا کہ اپوزیشن کی طرف سے واک آؤٹ دباؤ کا حربہ ہے تاکہ این آر او لیا جا سکے۔ اپوزیشن دباؤ بڑھا کر نیب میں کرپشن کیسز میں احتساب سے بچنا چاہتی ہے۔

وزیراعظم کے اس بیان پر پاکستان پیپلز پارٹی کے سید خورشید شاہ نے کہا کہ ان کی خوش قسمتی ہے کہ عمران خان پاکستان کے وزیراعظم بن چکے ہیں۔ ہم انہیں وزیراعظم تسلیم کرتے ہیں۔ ہم پارلیمنٹ آتے ہیں، بائیکاٹ کرتے ہیں۔ لیکن میں عمران خان سے پوچھتا ہوں آپ کیوں نہیں آتے؟ آپ نے تو کہا تھا کہ سوالوں کے جواب خود دوں گا؟ آپ تو پارلیمنٹ کا احترام نہیں کرتے۔ ہم این آر او مانگنے والے نہیں۔ عمران خان نے پتا نہیں این آر او کا نام کہاں سے سیکھ لیا۔

پاکستان مسلم لیگ(ن) کی مریم اورنگ زیب نے کہا کہ ٹوئٹر پر دھمکیاں دینے سے کچھ نہیں ہو گا۔ عوام کے مسائل کے حل کے لیے اپوزیشن آپ سے پوچھتی رہے گی۔

انہوں نے کہا کہ عمران صاحب جس پارلیمنٹ کا احساس کر رہے ہیں، وہ پانچ سال وہاں سے بھاگے رہے ہیں۔ اُسی پارلیمنٹ پہ حملہ کرتے رہے ہیں۔ عمران صاحب کا ٹویٹ ظاہر کرتا ہے کہ وہ اپنی اور اپنی کابینہ کی نااہلی کی وجہ سے پریشان ہیں۔ عمران صاحب ہمیشہ کی طرح الزامات لگا کر اپوزیشن سے اپنی نااہلی کا این آر او چاہتے ہیں۔ مریم اورنگ زیب کا کہنا تھا کہ اپوزیشن پوچھتی رہے گی کہ روپے کی قدر میں 35 فیصد فیصد کمی کیسے ہوئی؟

سابق اسپیکر اور مسلم لیگ(ن) کے راہنما ایازصادق کہتے ہیں کہ اسمبلی میں جتنی ہنگامہ آرائی ان کے دور میں ہوئی کبھی نہیں ہوئی۔ یہ اپنی بدتمیزیاں دیکھیں اور اس کے بعد اپوزیشن کے واک آؤٹ کی بات کریں۔

انہوں نے کہا کہ کیا وزیراعظم سے کسی نے این آر او مانگا ہے؟ کیا یہ وزیراعظم کسی کو این آر او دے سکتے ہیں؟ اس مانگے تانگے کی حکومت میں اتنی سکت نہیں کہ وہ کسی کو این آر او دے سکے۔ کسی نے این آر او مانگا نہ کوئی خواہش مند ہے۔ ایاز صادق کا کہنا تھا کہ جتنا احتجاج پی ٹی آئی نے اسمبلی میں کیا، کسی نے نہیں کیا، پی ٹی آئی والوں نے آئین کی کاپیاں بھی پھاڑیں۔

اپوزیشن جماعتوں کا اجلاس

اپوزیشن جماعتوں نے حکومت کے خلاف مشترکہ حکمت عملی اپنانے کا فیصلہ کیا ہے اور اس مقصد کے لیے پارلیمنٹ ہاؤس اسلام آباد میں قائد حزب اختلاف کے چیمبر میں اپوزیشن جماعتوں کا اجلاس ہوا۔ جس میں مسلم لیگ (ن) کی جانب سے شہباز شریف، رانا تنویر، شاہد خاقان عباسی، احسن اقبال، رانا ثناء اللہ اور سینیٹر پرویز رشید، پیپلز پارٹی کے آصف علی زرداری، بلاول بھٹو زرداری، خورشید شاہ، نوید قمر اور شیری رحمان، ایم ایم اے کے مولانا اسعد محمود اور مولانا واسع جب کہ اے این پی کے امیرحیدر ہوتی شریک ہوئے۔

اجلاس میں ملکی سیاسی و معاشی صورت حال، فوجی عدالتوں میں توسیع، نیب کی کارروائیوں اور اپوزیشن کی مشترکہ حکمت عملی پر بات چیت کی گئی۔

اجلاس کا ایجنڈا کیا تھا؟

اجلاس کے بعد میڈیا سے بات کرتے ہوئے شہباز شریف نے کہا کہ ملک میں معاشی حالات ابتر ہیں۔ مہنگائی روز بروز بڑھ رہی ہے۔ اجلاس میں طے پایا ہے کہ ملکی معاملات پر اپوزیشن کی مشترکہ حکمت عملی ہو گی۔ اس کے لئے ایک کمیٹی بھی تشکیل دے دی گئی ہے جس میں تمام جماعتوں کی نمائندگی ہے۔ یہی کمیٹی فوجی عدالتوں کی مدت میں توسیع سمیت دیگر تمام معاملات پر حکومت سے بات کرے گی۔

بلاول بھٹو زرداری نے کہا کہ پیپلز پارٹی، مسلم لیگ (ن)، اے این پی، بی این پی اور ایم ایم اے کے درمیان 3 نکات پر اتفاق ہوا ہے کہ ہم پاکستان کے عوام کے انسانی، معاشی اور جمہوری حقوق پر سمجھوتہ نہیں کریں گے۔ اپوزیشن جماعتوں کا مشترکہ کمیٹی تشکیل دینے پر اتفاق ہوا ہے۔ یہ کمیٹی اپوزیشن کے مشترکہ لائحہ عمل کے لئے تجاویز تیار کرے گی۔

اپوزیشن اور حکومت ایک دوسرے کے سامنے صف آرا ہو رہے ہیں اور حکومت کے خلاف اپوزیشن کا اتحاد آنے والے دنوں میں حکومت کے لیے مشکلات پیدا کر سکتا ہے، بالخصوص ایوان میں ہونے والی کسی قسم کے قانون سازی کے لیے مشترکہ اپوزیشن حکومت کو ٹف ٹائم دے سکتی ہے۔

XS
SM
MD
LG