اسلام آباد —
فوج کی طرف سے ملک کے قبائلی علاقے شمالی وزیرستان میں عسکریت پسندوں کے خلاف آپریشن کے حق میں بڑے پیمانے پر سیاسی اتفاق رائے کے ساتھ ساتھ اب مذہبی شخصیات نے بھی کہہ دیا کہ یہ فوجی کارروائی اسلامی تعلیمات و اقدار کے مطابق ہے۔
سنی علما بورڈ کے تحت اسلام آباد میں ہونے والے ایک اجلاس میں ایک سو سے زائد مشائخ، علما اور دینی شخصیات نے ایک فتویٰ جاری کیا ہے جس میں شمالی وزیرستان میں طالبان شدت پسندوں کے خلاف لڑی جانے والی جنگ کو ’’جہاد‘‘ قرار دیتے ہوئے اس کی حمایت اور اس میں فوجیوں اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کے ساتھ تعاون کو مذہبی فریضہ قرار دیا ہے۔
غفران سیالوی بھی اس فتویٰ پر دستخط کرنے والے علما و مشائخ میں شامل تھے۔
پیر کو وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ شرعاً اور ملک کے آئین کے تحت یہ افواج پاکستان کی ذمہ داری ہے کہ وہ جغرافیائی و نظریاتی اعتبار سے پاکستان کے تحفظ کے لیے شدت پسندوں سے جنگ کر کے ان کا قلع قمع کریں۔
’’اسلام نے امن، جان و مال اور عزت نفس کا درس دیا اور طالبان جو اسلام چاہتے ہیں اس میں تو وہ کسی (دوسرے عقائد رکھنے والے) کو جینے کا حق ہی نہیں دیتے۔ طالبان صرف وزیرستان والے نہیں (ہیں) بلکہ ملک بھر میں طالبانائزیشن کے خلاف کارروائی کی جائے۔‘‘
ان کا کہنا تھا کہ حکومت ملک میں دینی مدارس کی باقاعدہ نگرانی کا نظام وضح کرتے ہوئے انہیں قواعد و ضوابط کا پابند بنائے۔
گزشتہ ایک دہائی سے زائد عرصے سے پاکستان دہشت گردی کے خلاف جنگ لڑ رہا ہے جس میں سکیورٹی اہلکاروں سمیت 40 ہزار سے زائد افراد مارے جا چکے ہیں۔
تاہم مبصرین کا کہنا ہے کہ چند مذہبی اور قدامت پسند سیاسی جماعتوں کی نظریاتی سوچ کی وجہ سے یہ معاملہ زیادہ تر سیاسی عدم اتفاق کا شکار رہا جس کے فوائد ان کے بقول عسکریت پسندوں نے حاصل کیے۔
ملک کی معروف لاہور یورنیورسٹی آف منیجمنٹ سائنسز کے سوشل سائنسز کے پروفیسر محمد وسیم کہتے ہیں کہ کسی بھی جنگ کی کامیابی کے لیے اس کے حق میں عوامی اتفاق رائے ناگزیر ہے۔
’’فوج ہمیشہ چاہے گی کہ ان کے اقدام کو عوام کی حمایت حاصل ہو۔ کہ اگر ہم پیچھے دیکھیں تو عوام ہمارے ساتھ ہو۔‘‘
ان کا کہنا تھا کہ حکومت بھی نہیں چاہتی کہ یہ آپریشن کسی تنازع کا شکار ہو۔
’’عوامی رائے آپریشن کے حق میں نا تھی بلکہ خلاف بنائی گئی تھی کہ یہ (عسکریت پسند) ہمارے مسلمان بھائی ہیں انہیں دہشت گرد بھی نا کہو۔‘‘
15 جون کو القاعدہ سے منسلک جنگجوؤں کے خلاف ان کے گڑھ شمالی وزیرستان میں فوجی آپریشن شروع ہونے کے فوراً بعد سے سرکاری ٹی وی پر فوجیوں کی حوصلہ افزائی کے لیے ترانے نشر کیے جا رہے ہیں جبکہ اتوار کو پنجاب حکومت کی طرف سے نجی ٹی وی چینلز پر اس بارے میں خصوصی اشتہاری مہم کا آغاز کیا گیا۔
فضائی کارروائیوں میں فوج کے ترجمان کے مطابق 250 سے زائد عسکریت پسند مارے جا چکے ہیں جن میں ایک بڑی تعداد غیر ملکی جنگجوؤں کی ہے۔
سنی علما بورڈ کے تحت اسلام آباد میں ہونے والے ایک اجلاس میں ایک سو سے زائد مشائخ، علما اور دینی شخصیات نے ایک فتویٰ جاری کیا ہے جس میں شمالی وزیرستان میں طالبان شدت پسندوں کے خلاف لڑی جانے والی جنگ کو ’’جہاد‘‘ قرار دیتے ہوئے اس کی حمایت اور اس میں فوجیوں اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کے ساتھ تعاون کو مذہبی فریضہ قرار دیا ہے۔
غفران سیالوی بھی اس فتویٰ پر دستخط کرنے والے علما و مشائخ میں شامل تھے۔
پیر کو وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ شرعاً اور ملک کے آئین کے تحت یہ افواج پاکستان کی ذمہ داری ہے کہ وہ جغرافیائی و نظریاتی اعتبار سے پاکستان کے تحفظ کے لیے شدت پسندوں سے جنگ کر کے ان کا قلع قمع کریں۔
’’اسلام نے امن، جان و مال اور عزت نفس کا درس دیا اور طالبان جو اسلام چاہتے ہیں اس میں تو وہ کسی (دوسرے عقائد رکھنے والے) کو جینے کا حق ہی نہیں دیتے۔ طالبان صرف وزیرستان والے نہیں (ہیں) بلکہ ملک بھر میں طالبانائزیشن کے خلاف کارروائی کی جائے۔‘‘
ان کا کہنا تھا کہ حکومت ملک میں دینی مدارس کی باقاعدہ نگرانی کا نظام وضح کرتے ہوئے انہیں قواعد و ضوابط کا پابند بنائے۔
گزشتہ ایک دہائی سے زائد عرصے سے پاکستان دہشت گردی کے خلاف جنگ لڑ رہا ہے جس میں سکیورٹی اہلکاروں سمیت 40 ہزار سے زائد افراد مارے جا چکے ہیں۔
تاہم مبصرین کا کہنا ہے کہ چند مذہبی اور قدامت پسند سیاسی جماعتوں کی نظریاتی سوچ کی وجہ سے یہ معاملہ زیادہ تر سیاسی عدم اتفاق کا شکار رہا جس کے فوائد ان کے بقول عسکریت پسندوں نے حاصل کیے۔
ملک کی معروف لاہور یورنیورسٹی آف منیجمنٹ سائنسز کے سوشل سائنسز کے پروفیسر محمد وسیم کہتے ہیں کہ کسی بھی جنگ کی کامیابی کے لیے اس کے حق میں عوامی اتفاق رائے ناگزیر ہے۔
’’فوج ہمیشہ چاہے گی کہ ان کے اقدام کو عوام کی حمایت حاصل ہو۔ کہ اگر ہم پیچھے دیکھیں تو عوام ہمارے ساتھ ہو۔‘‘
ان کا کہنا تھا کہ حکومت بھی نہیں چاہتی کہ یہ آپریشن کسی تنازع کا شکار ہو۔
’’عوامی رائے آپریشن کے حق میں نا تھی بلکہ خلاف بنائی گئی تھی کہ یہ (عسکریت پسند) ہمارے مسلمان بھائی ہیں انہیں دہشت گرد بھی نا کہو۔‘‘
15 جون کو القاعدہ سے منسلک جنگجوؤں کے خلاف ان کے گڑھ شمالی وزیرستان میں فوجی آپریشن شروع ہونے کے فوراً بعد سے سرکاری ٹی وی پر فوجیوں کی حوصلہ افزائی کے لیے ترانے نشر کیے جا رہے ہیں جبکہ اتوار کو پنجاب حکومت کی طرف سے نجی ٹی وی چینلز پر اس بارے میں خصوصی اشتہاری مہم کا آغاز کیا گیا۔
فضائی کارروائیوں میں فوج کے ترجمان کے مطابق 250 سے زائد عسکریت پسند مارے جا چکے ہیں جن میں ایک بڑی تعداد غیر ملکی جنگجوؤں کی ہے۔