شمالی وزیرستان میں عسکریت پسندوں کے خلاف فوجی کارروائی سے بے دخل اور متاثر ہونے والوں میں صحافی اور ان کے خاندان والے بھی شامل ہیں۔
گوکہ اس قبائلی علاقے سے کوئی اخبار شائع نہیں ہوتا مگرگزشتہ ایک دہائی کے دوران علاقے کی حساس نوعیت کے پیش نظر نہ صرف ملکی ذرائع ابلاغ بلکہ بین الاقوامی اداروں نے بھی یہاں سے خبروں کے حصول کے لیے کچھ صحافیوں کو اپنا مقرر کر رکھا تھا۔
شمالی وزیرستان سے تعلق رکھنے والے ایک سینیئر صحافی حاجی محمد پذیر نے وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ انہوں نے دیگر قبائلیوں کی طرح سخت حالات میں نقل مکانی کی ہے اور انھیں بھی دیگر قبائلیوں کی طرح اندراج اور دیگر مشکل مراحل سے گزرنا پڑا۔
ان کا کہنا تھا کہ شمالی وزیرستان سے لگ بھگ 32 صحافی اور ان کے خاندان نقل مکانی کرنے کر کے خیبر پختونخواہ کے مختلف علاقوں میں پہنچے ہیں۔
"یہ مختلف علاقوں میں رہتے ہیں بعض بنوں میں رہتے ہیں اور بعض پشاور آئے ہیں اور میں نے خود بھی اپنے بچے گرمی کی وجہ سے سوات میں رہ گئے ہیں اور میں رپورٹنگ کے لیے بنوں میں ہوں۔۔۔ہمیں کسی سے کوئی فائدہ نہیں ملا ہے ہم بھی اسی طرح لائنوں میں کھڑے رہے ہیں۔"
حاجی پذیر کا کہنا تھا کہ گورنر خیبر پختونخواہ نے نقل مکانی کر کے آنے والے صحافیوں سے ملاقات کی اور فی صحافی 50 ہزار روپے امداد کا چیک بھی دی۔ لیکن ان کے بقول دیگر نجی وسرکاری اداروں نے بھی اس قسم کے اعلانات کیے تھے لیکن تاحال اس بارے میں کوئی عملی اقدام دیکھنے میں نہیں آیا۔
جنوبی ایشیا میں ذرائع ابلاغ کی ایک نمائندہ تنظیم "سیفما" کی علاقائی سیکرٹری جنرل فرزانہ علی کہتی ہیں کہ نقل مکانی کر کے آنے والے صحافی مشکلات کے باوجود بھی اپنی ذمہ داریاں نبھا رہے ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ صحافتی تنظیموں کو اپنے ان ساتھیوں کی مدد کے لیے بڑھ چڑھ کر عملی طور پر اقدامات کرنے چاہیئں۔
"مختلف ادارے جیسے کہ سیفما بھی ہے مختلف آرگنائزیشنز ہے جو کام کر رہی ہیں صحافیوں کی فلاح و بہبود کے لیے انھیں اس وقت اٹھنا چاہیئے اور انھیں ان کی مدد کرنی چاہیئے اور کچھ ان کی فیملیز کے لیے بھی کرنا چاہیئے کیونکہ ایک طرف تو آپ دیکھیں کہ وہ مسلسل اپنی ڈیوٹیاں بھی نبھا رہے ہیں اور بھاگے بھاگے جاتے ہیں اور جا کر اپنے لوگوں کے لیے اپنی فیملیز کے لیے شیلٹر کا بھی بندوبست کرتے ہیں۔"
پاکستان کا شمار دنیا میں صحافیوں کے لیے مشکل ترین سمجھے جانے والے ملکوں میں ہوتا ہے اور شمالی وزیرستان کے پہلے سے مشکل حالات میں اپنی پیشہ وارانہ ذمہ داریاں نبھانے والے یہ صحافی اب نقل مکانی کی مشکلات سے گزر رہے ہیں۔