چین پاکستان اقتصادی راہداری کے منصوبے کو خطے کی قسمت بدل دینے والا منصوبہ تو قرار دیا جا رہا ہے لیکن اس پر حزب مخالف اور بعض قوم پرست جماعتوں کی طرف سے تحفظات کا اظہار بھی کیا جاتا رہا ہے۔
جمعہ کو وزیراعظم نواز شریف نے اسلام آباد میں سیاسی رہنماؤں سے اس معاملے پر مشاورتی اجلاس کیا جس میں فیصلہ کیا گیا کہ اقتصادی راہداری منصوبے پر پیش رفت کا جائزہ لینے کے لیے ایک رہبر کمیٹی بنائی جائے گی۔
اس کمیٹی میں چاروں صوبوں کے وزرائے اعلیٰ شامل ہوں گے اور جو ہر تین ماہ بعد پیش رفت کا جائزہ لیں گے۔
وزیراعظم کا کہنا تھا کہ مغربی روٹ پر کام ترجیحی بنیادوں پر تیزی سے مکمل کیا جائے گا اور اس میں پیش رقت کی نگرانی وہ خود کریں گے۔
اجلاس میں تقریباً سب ہی سیاسی جماعتوں کے قائدین اور سرکردہ رہنماؤں نے شرکت کی اور اس میں فیصلہ کیا گیا کہ راہداری منصوبے کے روٹ کے ساتھ ساتھ اقتصادی زونز سے متعلق صوبوں سے مشاورت سے کی جائی گی۔
46 ارب ڈالر کے اس منصوبے کے تحت چین کے شہر کاشغر سے پاکستان کے جنوب مغربی ساحلی شہر گوادر تک مواصلات، بنیادی ڈھانچے اور صنعتوں کا جال بچھایا جانا ہے۔
حکومت یہ کہتی آئی ہے کہ اس منصوبے سے پورے ملک کو یکساں فائدہ ہوگا لیکن حزب مخالف خصوصاً خیبر پختونخواہ اور بلوچستان کی سیاسی جماعتوں کا موقف رہا ہے کہ مغربی روٹ کی بجائے حکومت مشرقی روٹ کو ترجیح دے کر مبینہ طور پر پنجاب کو زیادہ فائدہ پہنچانا چاہتی ہے۔
لیکن جمعہ کو ہونے والے اجلاس کے بعد سیاسی جماعتوں کے رہنماؤں نے حکومتی یقین دہانیوں پر کسی قدر اطمینان کا اظہار کیا ہے۔