اسلام آباد —
پاکستان کی وفاقی کابینہ نے داخلی سلامتی کی قومی پالیسی کی منظوری دے دی ہے جس کی تفصیلات وزیر داخلہ چودھری نثار بدھ کو قومی اسمبلی کے اجلاس میں بتائیں گے۔
منگل کو وزیراعظم نواز شریف کی زیر صدارت اجلاس میں یہ بھی کہا گیا کہ طالبان کو یکطرفہ طور پر دہشت گردی کے حملے بند کرنے کا اعلان کرنا ہو گا۔
طالبان شدت پسندوں سے مذاکرات کے لیے تشکیل کردہ سرکاری کمیٹی کے رابطہ کار اور وزیراعظم نواز شریف کے مشیر برائے قومی اُمور عرفان صدیقی نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ مذاکرات کے لیے تشدد کا خاتمہ ضروری ہے۔
’’طالبان کی طرف سے کیوں کہ بار بار خلاف ورزی ہوئی، لہذا وہ یکطرفہ طور پر ازخود بلکہ یہ کہنا چاہیے غیر مشروط پر تشدد کارروائیاں بند کر دیں اور اس کا واضح اعلان کریں اور پھر جو بھی اُن میں سے ایسی کسی کارروائی میں ملوث ہوتا ہے اُس کی مذمت کریں اور اس کو اپنی صفوں سے خارج کریں۔ یہ کمیٹی کا موقف تھا جس کی تائید کابینہ نے بھی کی۔‘‘
عرفان صدیقی نے کہا کہ طالبان جب یہ اقدام کر لیں گے تو پھر حکومت بھی اس کے جواب میں مثبت اقدام پر غور کرے گی۔
اجلاس میں ملک میں امن و امان کی مجموعی صورتحال اور شدت پسندوں سے مذاکرات کے عمل کا بھی جائزہ لیا گیا۔
وفاقی وزیر داخلہ یہ کہتے آئے ہیں کہ داخلی سلامتی کی قومی پالیسی میں ملک کے انٹیلی جنس اداروں کے درمیان روابط اور معلومات کے تبادلے کے نظام کو فعال اور موثر بنانے کے لیے ایک جوائنٹ انٹیلی جنس ڈائریکٹوریٹ قائم کیا جائے گا جب کہ ایک خصوصی فورس بھی تیار کی جائے گی جس کا مقصد دہشت گردی کے کسی بھی حملے کی صورت میں فوری کارروائی کرنا ہو گا۔
حکومت نے شدت پسندوں کے ساتھ مذاکرات کے ذریعے ملک میں امن و امان بحال کرنے کی کوششیں شروع کی تھیں لیکن اس کے باوجود پرتشدد واقعات رونما ہوتے رہے۔
16 فروری کو مہمند ایجنسی میں طالبان کے ایک مقامی کمانڈر کی طرف سے سکیورٹی فورسز کے 23 اہلکاروں کو قتل کرنے کے اعلان کے بعد یہ کوششیں تعطل کا شکار ہوگئیں اور ملک میں شدت پسندوں کے خلاف کارروائی کے مطالبات میں اضافہ بھی دیکھنے میں آیا۔
سرکاری ذرائع ابلاغ کے مطابق شدت پسندوں کے خلاف سکیورٹی فورسز کی ممکنہ بھرپور کارروائی کے تناظر میں وزیرستان سے نقل مکانی کرنے والوں کے معاملے کی نگرانی کی ذمہ داری وفاقی وزیر برائے سرحدی امور عبدالقادر بلوچ کو سونپی گئی۔
منگل کو وزیراعظم نواز شریف کی زیر صدارت اجلاس میں یہ بھی کہا گیا کہ طالبان کو یکطرفہ طور پر دہشت گردی کے حملے بند کرنے کا اعلان کرنا ہو گا۔
طالبان شدت پسندوں سے مذاکرات کے لیے تشکیل کردہ سرکاری کمیٹی کے رابطہ کار اور وزیراعظم نواز شریف کے مشیر برائے قومی اُمور عرفان صدیقی نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ مذاکرات کے لیے تشدد کا خاتمہ ضروری ہے۔
’’طالبان کی طرف سے کیوں کہ بار بار خلاف ورزی ہوئی، لہذا وہ یکطرفہ طور پر ازخود بلکہ یہ کہنا چاہیے غیر مشروط پر تشدد کارروائیاں بند کر دیں اور اس کا واضح اعلان کریں اور پھر جو بھی اُن میں سے ایسی کسی کارروائی میں ملوث ہوتا ہے اُس کی مذمت کریں اور اس کو اپنی صفوں سے خارج کریں۔ یہ کمیٹی کا موقف تھا جس کی تائید کابینہ نے بھی کی۔‘‘
عرفان صدیقی نے کہا کہ طالبان جب یہ اقدام کر لیں گے تو پھر حکومت بھی اس کے جواب میں مثبت اقدام پر غور کرے گی۔
اجلاس میں ملک میں امن و امان کی مجموعی صورتحال اور شدت پسندوں سے مذاکرات کے عمل کا بھی جائزہ لیا گیا۔
وفاقی وزیر داخلہ یہ کہتے آئے ہیں کہ داخلی سلامتی کی قومی پالیسی میں ملک کے انٹیلی جنس اداروں کے درمیان روابط اور معلومات کے تبادلے کے نظام کو فعال اور موثر بنانے کے لیے ایک جوائنٹ انٹیلی جنس ڈائریکٹوریٹ قائم کیا جائے گا جب کہ ایک خصوصی فورس بھی تیار کی جائے گی جس کا مقصد دہشت گردی کے کسی بھی حملے کی صورت میں فوری کارروائی کرنا ہو گا۔
حکومت نے شدت پسندوں کے ساتھ مذاکرات کے ذریعے ملک میں امن و امان بحال کرنے کی کوششیں شروع کی تھیں لیکن اس کے باوجود پرتشدد واقعات رونما ہوتے رہے۔
16 فروری کو مہمند ایجنسی میں طالبان کے ایک مقامی کمانڈر کی طرف سے سکیورٹی فورسز کے 23 اہلکاروں کو قتل کرنے کے اعلان کے بعد یہ کوششیں تعطل کا شکار ہوگئیں اور ملک میں شدت پسندوں کے خلاف کارروائی کے مطالبات میں اضافہ بھی دیکھنے میں آیا۔
سرکاری ذرائع ابلاغ کے مطابق شدت پسندوں کے خلاف سکیورٹی فورسز کی ممکنہ بھرپور کارروائی کے تناظر میں وزیرستان سے نقل مکانی کرنے والوں کے معاملے کی نگرانی کی ذمہ داری وفاقی وزیر برائے سرحدی امور عبدالقادر بلوچ کو سونپی گئی۔