اسلام آباد —
پاکستان کے سابق فوجی صدر پرویز مشرف نے منگل کو اسلام آباد میں سابق فوجی افسران اور اہلکاروں سے خطاب میں کہا کہ اُن کے خلاف غداری کا مقدمہ صرف فوجی عدالت ہی میں چلایا جا سکتا ہے کیوں کہ اُن کے بقول سول عدالت کو ایسا کرنے کا اختیار نہیں۔
اس سے قبل سابق صدر کے وکلاء نے اسلام آباد ہائی کورٹ میں دائر کردہ ایک درخواست میں بھی یہی موقف اختیار کیا تھا، جسے مسترد کر دیا گیا تھا۔
پرویز مشرف کا کہنا تھا کہ اُنھوں نے 2007ء میں ایمرجنسی کا نفاذ ملک کے مفاد میں کیا تھا اور اس اقدام پر اُن کے خلاف مقدمہ فوجی عدالت ہی میں چلایا جا سکتا ہے۔
اُنھوں نے کہا کہ وہ اپنے خلاف مقدمات کا سامنا کریں گے۔ پرویز مشرف نے اپنے خطاب میں کہا کہ وہ اگر 10 سال بعد بھی ملک میں آتے تو اُنھیں مقدمات کا سامنا کرنا پڑتا اور پاکستان واپسی کا فیصلہ اُن کا اپنا تھا۔
پرویز مشرف چار سالہ خودساختہ جلا وطنی ختم کر کے رواں سال مارچ میں پاکستان واپس آئے تھے۔
اُدھر منگل کو پرویز مشرف کے وکلاء نے اپنے موکل کے خلاف غداری کا مقدمہ چلانے کے لیے تشکیل کردہ خصوصی عدالت کے قیام کے خلاف انٹرا کورٹ اپیل دائر کی ہے۔
اسلام آباد ہائی کورٹ کے جسٹس ریاض احمد خان نے گزشتہ ہفتے خصوصی عدالت کی تشکیل کے خلاف پرویز مشرف کی درخواستوں کو مسترد کر دیا تھا جس کے خلاف اُنھوں نے اپیل دائر کی۔
اس بارے میں پرویز مشرف کے وکلاء کی ٹیم میں شام بیرسٹر محمد علی سیف نے وائس آف امریکہ کو بتایا ’’ہم نے گزشتہ ہفتے خصوصی عدالت کے ججوں اور حکومت کے تعینات کیے پراسیکوٹر کی حیثیت کو ہم نے چیلنج کیا تھا جسے مسترد کر دیا گیا، ہمیں توقع ہے کہ لاجر بینج اس پر درست فیصلہ کرے گا۔‘‘
پرویز مشرف نے اپنے حالیہ انٹرویو میں کہا تھا کہ اُنھیں غداری سے متعلق مقدمے میں فوج کی حمایت حاصل ہے۔
تاہم منگل کو وفاقی وزیر داخلہ چوھردی نثار نے اسلام آباد میں صحافیوں سے گفتگو میں کہا کہ ’’اُنھوں (پرویز مشرف) نے دور اقتدار میں فوج کے نام کو غلط استعمال کیا، فوج کی طاقت کو غلط استعمال کیا اب اپنی جان بچانے کے لیے فوج کے غلط استعمال کر رہے ہیں۔‘‘
سابق فوجی صدر کے خلاف غداری سے متعلق مقدمے کی سماعت کرنے والی خصوصی عدالت نے پرویز مشرف کو یکم جنوری کو پیش ہونے کا حکم دے رکھا ہے۔
اس سے قبل 24 دسمبر کو خصوصی عدالت میں پیشی سے کچھ وقت قبل ہی پرویز مشرف کے اسلام آباد میں واقع فارم ہاؤس کے قریب ایک بم برآمد ہوا جسے ناکارہ بنا دیا گیا۔ اس کے ساتھ دو پستول بھی پولیس نے برآمد کیے۔
جس کے بعد پرویز مشرف کے وکلا نے عدالت سے استدعا کی تھی کہ سلامتی کے خدشات کے باعث ان کے موکل عدالت میں پیش نہیں ہو سکتے۔
اس سے قبل سابق صدر کے وکلاء نے اسلام آباد ہائی کورٹ میں دائر کردہ ایک درخواست میں بھی یہی موقف اختیار کیا تھا، جسے مسترد کر دیا گیا تھا۔
پرویز مشرف کا کہنا تھا کہ اُنھوں نے 2007ء میں ایمرجنسی کا نفاذ ملک کے مفاد میں کیا تھا اور اس اقدام پر اُن کے خلاف مقدمہ فوجی عدالت ہی میں چلایا جا سکتا ہے۔
اُنھوں نے کہا کہ وہ اپنے خلاف مقدمات کا سامنا کریں گے۔ پرویز مشرف نے اپنے خطاب میں کہا کہ وہ اگر 10 سال بعد بھی ملک میں آتے تو اُنھیں مقدمات کا سامنا کرنا پڑتا اور پاکستان واپسی کا فیصلہ اُن کا اپنا تھا۔
پرویز مشرف چار سالہ خودساختہ جلا وطنی ختم کر کے رواں سال مارچ میں پاکستان واپس آئے تھے۔
اُدھر منگل کو پرویز مشرف کے وکلاء نے اپنے موکل کے خلاف غداری کا مقدمہ چلانے کے لیے تشکیل کردہ خصوصی عدالت کے قیام کے خلاف انٹرا کورٹ اپیل دائر کی ہے۔
اسلام آباد ہائی کورٹ کے جسٹس ریاض احمد خان نے گزشتہ ہفتے خصوصی عدالت کی تشکیل کے خلاف پرویز مشرف کی درخواستوں کو مسترد کر دیا تھا جس کے خلاف اُنھوں نے اپیل دائر کی۔
اس بارے میں پرویز مشرف کے وکلاء کی ٹیم میں شام بیرسٹر محمد علی سیف نے وائس آف امریکہ کو بتایا ’’ہم نے گزشتہ ہفتے خصوصی عدالت کے ججوں اور حکومت کے تعینات کیے پراسیکوٹر کی حیثیت کو ہم نے چیلنج کیا تھا جسے مسترد کر دیا گیا، ہمیں توقع ہے کہ لاجر بینج اس پر درست فیصلہ کرے گا۔‘‘
پرویز مشرف نے اپنے حالیہ انٹرویو میں کہا تھا کہ اُنھیں غداری سے متعلق مقدمے میں فوج کی حمایت حاصل ہے۔
تاہم منگل کو وفاقی وزیر داخلہ چوھردی نثار نے اسلام آباد میں صحافیوں سے گفتگو میں کہا کہ ’’اُنھوں (پرویز مشرف) نے دور اقتدار میں فوج کے نام کو غلط استعمال کیا، فوج کی طاقت کو غلط استعمال کیا اب اپنی جان بچانے کے لیے فوج کے غلط استعمال کر رہے ہیں۔‘‘
سابق فوجی صدر کے خلاف غداری سے متعلق مقدمے کی سماعت کرنے والی خصوصی عدالت نے پرویز مشرف کو یکم جنوری کو پیش ہونے کا حکم دے رکھا ہے۔
اس سے قبل 24 دسمبر کو خصوصی عدالت میں پیشی سے کچھ وقت قبل ہی پرویز مشرف کے اسلام آباد میں واقع فارم ہاؤس کے قریب ایک بم برآمد ہوا جسے ناکارہ بنا دیا گیا۔ اس کے ساتھ دو پستول بھی پولیس نے برآمد کیے۔
جس کے بعد پرویز مشرف کے وکلا نے عدالت سے استدعا کی تھی کہ سلامتی کے خدشات کے باعث ان کے موکل عدالت میں پیش نہیں ہو سکتے۔