انسانی حقوق کی موقر تنظیم ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان نے حکومت سے ملک میں جبری گمشدگیوں کے انسداد کے اقدامات پر عملدرآمد تیز کرنے پر زور دیا ہے۔
جبری گمشدگیوں کے عالمی دن کے موقع پر ہفتہ کو کمیشن کی طرف سے جاری بیان میں کہا گیا کہ بلوچستان میں جبری گمشدگیوں میں کمی دیکھی گئی لیکن خیبرپختونخواہ اور سندھ میں ایسے واقعات میں اضافہ ہوا ہے۔
بلوچستان میں ایک عرصے تک لاپتا افراد کے معاملے پر انسانی حقوق کی تنظیمیں آواز اٹھاتی رہی ہیں اور ان افراد کے لواحقین اکثر واقعات کا الزام سکیورٹی ایجنسی پر عائد کرتی رہی ہیں جنہیں حکام مسترد کر چکے ہیں۔
بیان کے مطابق پاکستان کا شمار دنیا کے ان ملکوں میں ہوتا ہے جہاں جبری گمشدگیوں سے متعلق واقعات میں سے زیادہ تر حل نہیں ہوسکے۔ اس کی ایک وجہ انسانی حقوق کے کارکنوں کے بقول ان واقعات میں ملوث عناصر کو سزا نہ دینا بھی ہے۔
ایک سرگرم کارکن اور وکیل ضیا احمد اعوان کہتے ہیں کہ یہ واقعات ماورائے آئین و قانون ہوتے ہیں اور قانون کی عملداری کے بغیر ان کا حل ممکن نہیں۔
"جتنی بھی حکومتیں رہی ہیں اس معاملے میں ان کی ناکامی نظر آئی ہے کہ وہ قانون کی بالادستی کو یقینی نہیں بنا پائے اور پھر جو ایسے ادارے جو ملک کو بچانے کے لیے کام کرتے ہیں انھوں نے بھی وقت سے پہلے ایسے اقدامات نہیں کیے کہ ایسے واقعات نہ ہوں تو پھر وہ وضاحتیں دیتے ہیں لیکن جس ملک میں آئین و قانون کی بالادستی ہوگی وہاں ایسی وضاحتیں چل نہیں سکتیں۔"
ایچ آر سی پی کے بیان میں کہا گیا کہ لاپتا ہونے والے افراد میں سے زیادہ تر سیاسی اختلاف رائے رکھنے والے ہوتے ہیں اور کمیشن کے بقول یہ ایک ناقابل قبول امر ہے۔
حکومتی عہدیداروں کا کہنا ہے کہ اس معاملے کو نہایت سنجیدگی سے لیا جارہا ہے اور ہر ممکن کوشش کی جارہی ہے کہ لاپتا افراد کو منظر عام پر لایا جاسکے۔
سینیٹر راجہ ظفر الحق نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں کہا کہ اس معاملے کو انسانی حقوق کے علاوہ ایک انسانی المیے کے طور پر بھی دیکھا جانا چاہیے اور حکومت کی کوشش ہے کہ اسے آئین کے مطابق حل کیا جائے۔
"حکومت کے اٹارنی جنرل ہیں یا ایڈوکیٹ جنرل ہیں ہائی کورٹس میں ہیں وہ بالکل اس کوشش میں ہیں کہ اس مسلہ کو حل کیا جائے اور کچھ لوگوں کو رہا بھی کیا جا چکا ہے مسلسل اور باقی جو ہیں ان کے لیے بھی کوشش کی جارہی ہے"۔
پاکستان میں جبری گمشدگیوں کا معاملہ ایک سنجیدہ مسئلہ رہا ہے اور حالیہ برسوں میں اس بارے میں سپریم کورٹ از خود نوٹس لیتے ہوئے سماعت بھی کرتی چلی آ رہی ہے۔ جب کہ ایک عدالتی کمشین بھی تشکیل دیا گیا تھا، تاہم اس کے باوجود لاپتہ افراد کے لواحقین جبری گمشدگیوں کے خلاف مظاہرے بھی کرتے رہے ہیں۔