پاکستان میں انسانی حقوق کی موقر غیر سرکاری تنظیم "ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان" نے ملک میں آباد غیر مسلموں کے حقوق کے تحفظ اور ان کی زیادہ مذہبی آزادی کو یقینی بنانے کے لیے آئین میں ترامیم کا مطالبہ کیا ہے۔
ہفتہ کو پشاور میں ایک پریس کانفرنس کرتے ہوئے تنظیم کے عہدیداوں کا کہنا تھا کہ ان ترامیم کو بین الاقوامی سطح پر اقلیتوں کے لیے رائج قانون کی شق 20 سے ہم آہنگ کیا جائے۔
اس شق کے مطابق مذہبی منافرت پھیلانے یا مذہب کے نام پر تشدد میں ملوث افراد کو کم ازکم دس سال قید اور 25 لاکھ روپے جرمانے کے برابر سزائیں دینے کا کہا گیا ہے۔
مزید برآں انسانی حقوق کے ان سرگرم کارکنوں کا مطالبہ تھا کہ قیام پاکستان کے بعد یہاں غیر مسلموں کی جائیدادوں اور عبادت گاہوں کے لیے قائم کیے گئے نگران ادارے متروکہ وقف املاک کے 1975ء کے قانون کو ختم کرتے ہوئے یہ املاک یہاں آباد متعلقہ غیر مسلم برادریوں کے سپرد کی جائیں۔
پاکستان ایک مسلم اکثریتی آبادی والا ملک ہے لیکن یہاں مسیحی، ہندو اور سکھ برادری کے علاوہ دیگر غیر مسلم اقلتیں بھی آباد ہیں۔
پریس کانفرنس کرنے والوں میں پشاور ہائی کورٹ کے سابق جج شیر محمد خان بھی شامل تھے۔
وائس آف امریکہ سے گفتگو میں ان کا کہنا تھا کہ حکومت کو چاہیئے کہ وہ ان مطالبات پر غور کرے تاکہ ملک میں بسنے والے غیر مسلموں میں برابر کا شہری ہونے کا احساس مضبوط ہو سکے۔
"قوانین میں ترمیم کی ضرورت ہے۔۔۔آپ دیکھیں فاٹا اور پاٹا میں اور دیگر جگہوں پر بھی اقلیتوں کے لوگوں کے جو ڈومیسائل ہیں اس میں انھیں مشکلات ہیں ان کو اسکولوں میں ان کی مذہبی تعلیم نہیں دی جاتی۔ پھر ایف سی آر میں جو جرگہ ہے اس میں انھیں حق حاصل نہیں ہے۔"
ہیومن رائٹس کمیشن نے یہ مطالبہ بھی کیا کہ غیر مسلم برادری کے لوگوں کو بیت المال اور زکوۃ و عشر سے بھی براہ راست مدد فراہم کرنے کے اقدام بھی کیے جانے چاہیئں۔
گو کہ ان مطالبات پر تو فوری طور پر حکومت کی طرف سے کوئی ردعمل سامنے نہیں آیا لیکن موجودہ اور ماضی کی حکومتیں یہ کہتی رہی ہیں کہ پاکستان کے آئین میں غیرمسلم برادریوں کو بھی مساوی حقوق دیے گئے ہیں جن کے تحفظ کے لیے وہ ہر ممکن اقدام کرتی ہیں۔
لیکن اس کے باوجود آئے روز ان اقلیتوں کے خلاف امتیازی سلوک کی خبریں بھی منظر عام پر آتی رہتی ہیں۔
حال ہی میں خیبر پختونخواہ کی صوبائی حکومت نے تعلیمی اداروں میں قرآن کی تعلیم کو لازمی قرار دیا ہے جب کہ ان تعلیمی اداروں میں زیر تعلیم غیرمسلم طلبا سے متعلق اس ضمن میں کوئی فیصلہ تاحال نہیں کیا گیا ہے۔