مسلم اکثریتی آبادی والے ملک پاکستان میں غیر مسلم بھی ایک بڑی تعداد میں آباد ہیں جنہیں آئین کے تحت تو مساوی شہری حقوق حاصل ہیں لیکن عملی طور پر یہ برادریاں مختلف شعبوں میں امتیازی سلوک کا شکوہ کرتی نظر آتی ہیں۔
ایک ایسے وقت میں جب چند ماہ بعد ہی ملک میں عام انتخابات ہونے جا رہے ہیں، پاکستان میں آباد مسیحی برادری کے بعض سرکردہ رہنماؤں کا کہنا ہے کہ 70 سال کا عرصہ گزر جانے کے باوجود اقلیتوں کو پارلیمانی سیاست میں جائز نمائندگی نہیں دی گئی اور ان کے بقول اب وقت ہے کہ اس امتیاز کا خاتمہ کیا جائے۔
اس وقت سینیٹ، قومی و صوبائی اسمبلیوں میں غیر مسلم آبادی کے لیے نشستیں مخصوص ہیں جن پر ہر پارلیمانی جماعت ایک تناسب کے ساتھ اقلیتی برادری کے لوگوں کو ایوان میں آنے کا موقع فراہم کرتی ہے۔
لیکن اگر ایک طائرانہ نظر ڈالی جائے تو گزشتہ 21 سالوں میں جہاں ایوان کی دیگر نشستوں میں اضافہ ہوا وہاں اقلیتوں کے لیے مخصوص نشستوں میں کوئی ردوبدل نہیں کیا گیا۔
1997ء میں جب ملک کی آبادی تقریباً 12 کروڑ 90 لاکھ تھی تو قومی اسمبلی کا ایوان 217 نشستوں پر مشتمل تھا جس میں 202 عام نشستیں جن پر امیدوار انتخاب میں کامیاب ہو کر رکن بنتا تھا جب کہ پانچ نشستیں خواتین کے لیے مخصوص تھیں اور اقلیتوں کے لیے مخصوص نشستوں کی تعداد 10 تھی۔
2002ء کے انتخابات میں قومی اسمبلی کی کل نشستوں کو بڑھا کر 342 کر دیا گیا جس میں 272 عام نشستیں تھیں جب کہ خواتین کے لیے مخصوص نشستوں کو بڑھا کر 60 کر دیا گیا لیکن اقلیتوں کے لیے نشستوں کی تعداد 10 ہی رہنے دی گئی اور یہی کچھ آخری عام انتخابات (2013ء ) میں بھی ہوا۔
مسیحی برادری کے ایک سرگرم کارکن اور 'پاکستان انٹرفیتھ لیگ' نامی تنظیم کے سربراہ ساجد اسحٰق اس پر یہ سوال اٹھاتے نظر آتے ہیں کہ کیا ملک میں اقلیتی آبادی کی تعداد نہیں بڑھی جو ان کے لیے پارلیمان میں نشستوں کا اضافہ نہیں کیا گیا۔
پیر کو وائس آف امریکہ سے گفتگو میں ان کا کہنا تھا کہ جب اقلیتوں کو حقوق دینے کی بات کی جاتی ہے تو انھیں پارلیمان میں نمائندگی کا جو حق حاصل ہونا چاہیے اس پر توجہ نہیں دی جاتی اور اس میں ان کے بقول ملک کی سیاسی جماعتوں کی کوتاہی ہے جو صرف اپنی مرضی سے مخصوص نشستوں پر ایسے اقلیتی نمائندوں کو ایوان میں لے آتی ہیں جو ان غیر مسلم برادریوں کے منتخب کردہ نہ ہونے کی وجہ سے ان کے مسائل کے حل کے لیے خاطر خواہ سرگرمی نہیں دکھاتے۔
"ہمارا مطالبہ یہ رہا ہے کہ جب پاکستان میں آبادی بڑھی تو کیا غیر مسلم آبادی میں اضافہ نہیں ہوا؟ کیا انھوں نے شادیاں کرنا چھوڑ دیں یا ان کی اولاد ہونا بند ہو گئیں تو میں سمجھتا ہوں کہ یہ ہمارے خلاف ایک سازش ہوئی۔ آبادی جب بڑھ رہی ہے تو اقلیتوں کی نشستیں بھی بڑھنی چاہیئں۔"
ساجد اسحٰق نے کہا کہ ان کی برادری یہ پرزور مطالبہ کر رہی ہے اور منگل کو اسلام آباد میں مسیحی برادری کے ملک بھر سے کئی ایک مذہبی و سماجی راہنماؤں کے ساتھ وہ ایک پریس کانفرنس میں اس مطالبے کو تفصیل سے اجاگر کریں گے۔
"ہمیں سلیکشن نہیں الیکشن چاہئیے۔ ہمارا جو ووٹ کا حق ہے وہ ہمیں واپس دیں۔ ہم اس انتخابات سے پہلے مطالبہ کرتے ہیں کہ یہ مطالبات تسلیم کیے جائیں، آپ اقلیتوں کی جگہ فیصلہ نہیں کر سکتے۔"
حکمران جماعت مسلم لیگ ن کے اقلیتی رکن قومی اسمبلی خلیل جارج گو کہ اقتدار کے ایوان میں ہیں لیکن اس کے باوجود وہ بھی ایسا مطالبہ دہراتے نظر آئے۔
وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ یہ دیرینہ اور جائز مطالبہ ہے جس کے لیے انھوں نے متعلقہ کمیٹیوں میں بھی بات کی لیکن تاحال اس پر کسی قسم کی پیش رفت نہیں ہو سکی۔
"ہم نے کافی بات کی۔ میں انتخابی اصلاحات کمیٹی کے پاس بھی گیا۔ اس میں بھی کہا کہ آپ دیکھیں کہ یہ بڑی زیادتی ہے۔ لیکن سچی بات تو یہ ہے کہ کوئی عمل درآمد نہیں ہوا۔"
ساجد اسحٰق نے بتایا کہ اس وقت صرف سندھ اور بلوچستان کی اسمبلیوں میں اقلیتوں کو تقریباً پانچ، پانچ فیصد نمائندگی حاصل ہے جب کہ خیبرپختونخواہ کے علاوہ آبادی کے لحاظ سے سب سے بڑے صوبے پنجاب میں یہ تناسب صرف دو، دو فیصد ہے۔