پاکستان میں حالیہ برسوں میں دہشت گرد حملوں اور فرقہ وارانہ فسادات میں اضافے کے باعث ملک میں آباد اقلیتی برادری کے لوگ بھی عدم تحفظ کا شکار ہیں ۔ اس تناظر میں یہ مہم بھی زور پکڑتی جارہی ہے کہ پاکستان میں بسنے والے تمام مذاہب کے مابین ہم آہنگی ہی اس مسئلے پر قابو پانے کا ایک اہم ذریعہ ہے۔
بین المذاہب ہم آہنگی کے فروغ کے لیے سرکاری اداروں کے علاوہ غیر سرکاری تنظیمیں بھی مختلف سیمیناروں کے ذریعے اس بارے میںآ گاہی کی مہم چلارہی ہیں جس کا مقصد معاشرے میں برداشت کے رجحان کو بڑھانا ہے۔
غیر سرکاری تنظیم کاوش ڈیویلپمنٹ فاؤنڈیشن کے ایگزیکٹو ڈائریکٹرحسن ناصر نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ اگر ملک میں بسنے والے تمام مذاہب کے درمیان ہم آہنگی ہو گی تو حکومت انتہاپسندی اور دہشت گردی جیسے اندرونی خطرات کے علاوہ بیرونی خطرات سے نمٹنے پر زیادہ توجہ دے سکے گی ۔
اقلیتیں پاکستان کی کل آبادی کا تین فیصد ہیں جن میں ہندو، عیسائی، سکھ ، پارسی اور بہائی فرقے نمایاں ہیں جب کہ احمدیہ فرقے کے لوگ بھی اقلیتی آبادی کا ایک بڑا حصہ ہیں۔ حالیہ مہینوں میں لاہور میں احمدیوں کی عبادت گاہ کو نشانہ بھی بنایا گیا تھا جس کے بعد اس فرقے کے لوگوں میں خوف و ہراس میں اضافہ ہوگیا ہے۔
اس ڈراور خوف کے خاتمے کے لیے مسیحی برادری سے تعلق رکھنے والی خاتون رکن قومی اسمبلی آسیہ ناصرکا کہنا ہے کہ لسانی ، علاقائی اور مذہبی تفرقات کے خاتمے میں حکومت کو بھرپور کردار اد ا کرنا ہوگا تاکہ ملک میں بسنے والی اقلیتوں کو تحفظ اور برابری کا احساس ہو۔ آسیہ ناصر نے کہا کہ ملک میں اٹھاوریں آئینی ترمیم کے لیے قائم پارلیمانی کمیٹی میں اقلیتی برادری کا کوئی رکن شامل نہیں تھاجس کی بنا پر اُن کے مطالبات کا تحفظ نہیں کیا گیا۔
پاکستان میں بعض امتیازی قوانین کے خلاف اقلیتی جماعتیں طویل عرصے سے جدوجہدکرتی آئی ہیں اور اُن کا کہنا ہے کہ ان قوانین کے غیر قانونی امتیازی استعمال کے باعث وہ عدم تحفظ کا شکار ہیں اور اب جب کہ ملک میں انتہاپسند رجحانات میں اضافہ ہوا ہے اُن کے ڈراورخوف میں مزید اضافہ ہوا ہے۔
لیکن حکومت کا کہنا ہے کہ پاکستان میں آباد تما م اقلیتوں کے حقوق کا تحفظ اُس کی ذمہ داری ہے اورملک کے دستور کے تحت پارلیمان کے دونوں ایوانوں میں اقلیتوں کو نمائندگی بھی حاصل ہے جس کا مقصد اُنھیں قانون سازی کے عمل میں شامل کرناہے ۔
وفاقی وزرات برائے اقلیتی اُمور بھی عیسائی ، ہندو، پارسی اور دیگر اقلیتوں کے تحفظ کے لیے مختلف منصوبوں پر کام کررہی ہے جن میں مرکزی سطح پر ایسی ہاٹ لائن قائم کرنا بھی شامل ہے جہاں کسی بھی زیادتی کی صورت میں وہ شکایات درج کر اسکیں گے۔