رسائی کے لنکس

'سوشل میڈیا مذہب اور ایمان سے زیادہ اہم نہیں'


وفاقی وزیر داخلہ چودھری نثار علی خان (فائل فوٹو)
وفاقی وزیر داخلہ چودھری نثار علی خان (فائل فوٹو)

پاکستان کے وفاقی وزیر داخلہ نے کہا ہے کہ سماجی رابطوں کی ویب سائٹس پر مذہب سے متعلق توہین آمیز مواد کی بندش کے لیے مسلمان ممالک کے ساتھ مل کر ایک مشترکہ لائحہ عمل ترتیب دیا جائے گا۔

ملک میں سوشل میڈیا پر توہین آمیز مواد کو روکے جانے سے متعلق ایک درخواست بھی اسلام آباد کی عدالت عالیہ میں زیر سماعت جب کہ گزشتہ ہفتے ہی وزیراعظم نواز شریف نے متعلقہ عہدیداروں کو ہدایت کی تھی کہ ایسی سرگرمیوں میں ملوث عناصر کی نشاندہی کر کے انھیں کیفر کردار تک پہنچایا جائے۔

بدھ کو اسلام آباد میں ایک پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے وزیر داخلہ چودھری نثار علی خان کا کہنا تھا کہ پاکستان آزادی اظہار رائے پر یقین رکھتا ہے لیکن اگر مسلمانوں کی مقدس ہستیوں کی تضحیک نہ روکی گئی تو ان کے بقول سوشل میڈیا "مذہب اور ایمان سے زیادہ" اہم نہیں ہے۔

"میں (اسلام آباد میں) مسلم ممالک کے سفیروں کو مدعو کروں گا تاکہ اس کا بطور امہ مقابلہ کیا جائے۔ یہ صرف پاکستان کا مسئلہ نہیں ہے یہ سارے عالم اسلام کا مسئلہ ہے۔۔ وہ (سفراء) اپنے اپنے ممالک کو اس سے آگاہ کریں اور پاکستان کا یہ نقطہ ہے کہ ان مقدس ہستیوں کے ناموس کے لیے مشترکہ لائحہ عمل طے کریں۔"

انھوں نے متنبہ کیا کہ اگر خاص طور پر بین الاقوامی سوشل میڈیا کی ویب سائٹس نے اس پر توجہ نہ دی تو پھر ان کی طرف سے سخت اقدام سامنے آئے گا۔ تاہم وفاقی وزیر نے اس کی وضاحت نہیں کی۔

قبل ازیں بدھ ہی کو اسلام آباد ہائی کورٹ میں جاری سماعت کے دوران جسٹس شوکت عزیز صدیقی کا کہنا تھا کہ عدالت آئندہ سماعت تک یہ فیصلہ کر سکتی ہے کہ ملک میں توہین آمیز مواد والے سوشل میڈیا پر پابندی لگائی جانی چاہیے یا نہیں۔

انھوں نے پاکستان ٹیلی کمیونیکشن اتھارٹی کو حکم دیا کہ وہ اس سلسلے میں اب تک کی کارگزاری سے متعلق تفصیلی رپورٹ عدالت میں پیش کرے۔ اس معاملے کی سماعت اب 27 مارچ کو ہوگی۔

وفاقی تحقیقاتی ادارے "ایف آئی اے" نے عدالت کو بتایا کہ سوشل میڈیا پر توہین آمیز مواد شیئر کرنے والے ایک مشتبہ شخص کو گرفتار کیا جا چکا ہے جب دیگر ایسے لوگوں پر بھی کڑی نظر رکھی جا رہی ہے۔

ملک میں انسانی حقوق اور خاص طور پر انٹرنیٹ صارفین کے حقوق سے متعلق سرگرم کارکنان یہ کہتے آرہے ہیں کہ سوشل میڈیا تک رسائی پر مکمل پابندی کسی صورت بھی اس مسئلے کا حل نہیں ہے اور ماضی میں جس طرح ساڑھے تین سال تک وڈیو شیئرنگ کی معروف سائیٹ یوٹیوب کو پاکستان میں بند رکھا گیا تھا اگر سماجی رابطوں کی ویب سائٹس پر بھی ایسی ہی قدغن لگتی ہے تو یہ درست نہیں ہو گا۔

فائل فوٹو
فائل فوٹو

انٹرنیٹ صارفین کے حقوق کی ایک سرگرم کارکن نگہت داد نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں کہا کہ پابندی مسئلے کا حل نہیں اس کے لیے لوگوں کو آگاہی فراہم کرنے کا سلسلہ شروع کیا جانا چاہیے۔

"ضروری ہے کہ آپ لوگوں میں آگاہی پیدا کریں کہ وہ اس طرح کے مواد تک جائیں ہی نہ، میں ایک مسلمان ہوں تو میں کبھی بھی توہین مذہب والے مواد تک نہیں جاؤں گی۔ فیس بک کو بند کرنے سے یہ مواد ختم نہیں ہو جائے گا کوئی بھی گوگل کرتا ہے تو اس پر ایسا مواد آ جائے گا تو اس کا کیا مطلب ہے کہ آپ گوگل پر پابندی لگا دیں گے۔"

بدھ کو عدالت عالیہ میں زیر سماعت درخواست کی پیروی کرنے والے وکیل طارق اسد نے جج سے کہا کہ ایسے بیانات سامنے آرہے ہیں کہ اگر سوشل میڈیا پر پابندی لگی تو اس کے خلاف احتجاج کیا جائے گا جس پر عدالت کا کہنا تھا کہ وہ اس بارے میں ریفرنڈم کروانے کا بھی کہہ سکتی ہے۔

چودھری نثار نے بھی اپنی پریس کانفرنس میں کہا کہ حکومت کسی پر قدغن نہیں لگانا چاہتی لیکن آزادی رائے کی بنیاد پر دھمکیوں کو بھی برداشت نہیں کیا جائے گا۔

"کونسا فریڈم آف ایکسپریشن، اگر ہولوکاسٹ کے بارے میں کوئی شک کا اظہار کرتا ہے تو مغربی دنیا میں قیامت ٹوٹ پڑتی ہے۔۔۔دنیا میں ایک اندازے کے مطابق ایک ارب سے زائد مسلمان ہیں تو یہ ایک ایک مسلمان کی عزت و ناموس کا مسئلہ ہے۔"

تاہم انھوں نے میڈیا کے ذریعے لوگوں سے یہ اپیل بھی کی کہ وہ توہین مذہب کے معاملے پر اپنی اس ذمہ داری کا پاس بھی کریں کہ کسی بھی طرح کسی شخص پر اس کا غلط الزام نہیں لگنا چاہیے۔

پاکستان میں توہین مذہب ایک انتہائی حساس معاملہ ہے اور اگر کسی پر یہ الزام ثابت ہو جائے تو قانون کے مطابق اس کی سزا موت ہے۔ لیکن ایسا دیکھنے میں آتا رہا ہے کہ ان الزامات کا سامنا کرنے والوں کو مشتعل ہجوم قانون کی گرفت میں پہنچنے سے پہلے ہی تشدد کر کے ہلاک کر دیتا رہا ہے۔

XS
SM
MD
LG