بلوچستان کے ضلع مستونگ میں ایک سیاسی پارٹی کے جلسے میں ہونے والے خودکش حملے میں 128 افراد ہلاک اور150 سے زائد زخمی ہوگئے ہیں۔
صوبائی وزیر داخلہ آغا عمر بنگلزئی نے ’وائس آف امریکہ‘ کو بتایا کہ بلوچستان عوامی پارٹی کے رہنما سردار سراج رئیسانی اور حلقہ پی بی 32 سے ے اُمیدوار انتخابی مہم کے سلسلے میں، نوابزادہ سراج رئیسانی ضلع مستونگ کے علاقے درینگڑھ میں ایک اجتماع سے خطاب کرنے کےلئے جب جلسہ گاہ پہنچے اور اسٹیج کی طرف بڑھ رہے تھے کہ اسی اثنا میں لوگوں کے درمیان موجود خودکش حملہ آور نے اپنے جسم کے ساتھ بندھے ہوئے بارودی مواد کا زوردار دھماکہ کیا۔ دھماکے میں سراج رئیسانی سمیت درجنوں لوگ شدید زخمی ہوئے۔
زخمیوں کو نجی گاڑیوں میں ڈال کر لوگوں نے اپنی مدد آپ کے تحت مستونگ اور کوئٹہ کے اسپتالوں میں منتقل کیا۔ ڈپٹی کمشنر مستونگ قائم لاشاری کے مطابق کئی لوگ شدید زخمی ہوگئے تھے اور اسپتال بھی دھماکے کی جگہ سے کافی دور تھے اس لئے ہلاکتوں کی تعداد زیادہ ہوئی۔
نوابزادہ سراج رئیسانی کے بارے میں متضاد اطلاعات آرہی ہیں بعض سرکاری ذرائع اُن کی ہلاکت کی تصدیق کر رہے ہیں۔ لیکن، صوبائی وزیر داخلہ اور ضلع حکام اُن کے بارے میں شدید زخمی ہونے کا بتا رہے ہیں۔
واقعہ کے بعد ضلع مستونگ کی انتظامیہ سیکورٹی اداروں کے اہلکار موقع پر پہنچ گئے۔
موقع پر موجود شواہد جمع کئے اور عینی شاہدین سے معلومات حاصل کیں ، بم ڈسپوزل حکام کے بقول دھماکے میں دس کلو بارود استعمال کیا گیا تھا۔
دھماکے کی ذمہ داری داعش نے قبول کی ہے۔
تاہم، اس سے قبل ضلع مستونگ کے علاقے میں ہونے والے خودکش حملوں اور شیعہ زائرین پر حملوں کی ذمہ داری کالعدم مذہبی شدت پسند تنظیمیں قبول کرتی رہی ہیں۔
نوابزادہ سراج رئیسانی سابق وزیر اعلیٰ بلوچستان نواب اسلم رئیسانی اور بلوچستان نیشنل پارٹی کے مرکزی رہنما لشکری رئیسانی کے چھوٹے بھائی ہیں۔
نوابزادہ سراج رئیسانی کو حکومت کے قریب سمجھا جاتا تھا۔ انہوں نے حال ہی میں تشکیل دی گئی بلوچستان عوامی پارٹی میں اپنی تنظیم بلوچستان متحدہ محاذ کو ضم کردیا تھا۔
سراج رئیسانی پر نواب اسلم رئیسانی کے دور حکومت میں جلسہ کے دوران بم حملہ ہوا تھا جس میں وہ بچ گئے تھے۔ تاہم اُن کے بیٹے اکمل رئیسانی اس دھماکے میں ہلاک ہوگئے تھے۔
مرتضیٰ زہری کی وڈیو رپورٹ ملاحظہ فرمائیے: