رسائی کے لنکس

خواتین کے حقوق کے تحفظ کے لیے قانون اتفاق رائے سے منظور


خواتین کے حقوق کے تحفظ کے لیے قانون اتفاق رائے سے منظور
خواتین کے حقوق کے تحفظ کے لیے قانون اتفاق رائے سے منظور

پاکستان میں خواتین کو شادی پر مجبور کرنے اور جائیداد سے اُنھیں محروم رکھنے کے لیے قرآن مجید سے شادی جیسی دیگر روایات کے خلاف فومی اسملبی نے ایک نئے قانون کی اتفاق رائے سے منظوری دی ہے۔

ایوان زیریں نے منگل کو ہونے والے اجلاس میں خواتین کے تحفظ کے حوالے سے اس قانون میں ان روایات کو قابل سزا قرار دیا گیا ہے۔

اسمبلی کے اجلاس میں نجی کارروائی کے دن کے موقع پر مسلم لیگ (ق) کی رکن ڈاکٹر دونیا عزیز نے اس قانون کا مسودہ پیش کیا، یہ بل اس سے پہلے تین بار التوا کا شکار ہوا تھا۔

اس نئے قانون کے تحت صلح کے لیے، ونی، جبری یا قران سے شادی کے جرم میں مرتکب افراد کو 10 برس تک قید اور 10 لاکھ روپے جرمانہ کیا جا سکے گا اور یہ جرائم نا قابل ضمانت ہوں گے۔

ملک کے بعض دور دراز پسماندہ علاقوں میں ونی یعنی لڑائی میں صلح کے بدلے خواتین دینے جیسی روایات موجود ہیں خواتین دشمن روایات کے خلاف نئے قانون کے تحت ’’بدل صلح ونی یا سوارہ میں عورت یا حوالگی‘‘ میں ملوث افراد کے لیے سزا تجویز کی گئی ہے اور اس جرم میں مرتکب افراد کو زیادہ سے زیادہ سات سال اور کم سے کم تین سال کی سزا اور 5 لاکھ روپے جرمانہ ہو سکتا ہے۔

قانون میں خواتین کو دھوکہ دہی یا غیر قانونی ذرائع سے وراثت سے محروم رکھنے پر سزا کی حد 5 سے 10 سال اور 10 لاکھ روپے جرمانہ تجویز کیا گیا ہے۔


مزید برآں خواتین کو جائیداد سے محروم رکھنے کے لیے قرآن سے نکاح پڑھوانے کو بھی قابل جرم قراد دیا گیا ہے خواتین کو جائیداد سے محروم رکھنے کے لیے قرآن پر حلف لیا جاتا ہے کہ وہ آئندہ تمام زندگی غیر شادی شدہ رہیں گی اور وراثت میں اپنا حصہ نہیں مانگے گی۔ نئے قانون میں ’’ قرآن سے شادی کی ممانت‘‘ کی گئی ہے۔ اس جرم کے مرتکب افراد کے لیے زیادہ سے زیادہ سزا سات سال اور پانچ لاکھ روپے جرمانہ مقرر کی گئی ہے۔

قومی اسمبلی کے منظور کیے گئے قانون کے مطابق کسی بھی خاتون کو جبری طور یا کسی بھی طریقے سے شادی کے لیے مجبور کرنے والے کے لیے زیادہ سے زیادہ دس سال اور کم سے کم تین سال کی سزا تجویز کی گئی ہے جب کہ جرم کا ارتکاب کرنے والوں سے جرمانے کے طور پر پانچ لاکھ روپے وصول کی بھی منظوری دی گئی ہے۔

قومی اسمبلی سے منظوری کے بعد یہ بل ایوان بالا یعنی سینیٹ میں منظوری کے لیے پیش کیا جائے گا۔ دونوں ایوانوں سے منظوری کے بعد خواتین دشمن روایات کے خلاف بنایا گیا یہ قانون میں نافذ العمل ہو گا۔

پاکستان کے قانون ساز ایوانوں میں اکثریت کا تعلق زمیندار اور جاگیر دار طبقے سے ہے جن کے ہاں خواتین کو وراثت سے محروم رکھنے کی روایات موجود ہیں۔ لیکن گزشتہ کچھ سالوں سے غیرت کے نام پر قتل خواتین کے ساتھ زیادتی اور دفتروں میں خواتین کو ہراساں کیے جانے والے اقدامات کی حوصلی شکنی کے موثر قانون سازی تو گئی ہے لیکن پولیس کے موجودہ نظام کے تحت ان قوانین پر عملدرآمد میں تاحال مشکلات پیش آ رہی ہیں۔

XS
SM
MD
LG