انسانی جسم کو مفلوج کر دینے والی موذی بیماری پولیو کے وائرس کی اسلام آباد کے نکاسی آب میں نشاندہی کے بعد خصوصی طور پر ایک تین روزہ انسداد پولیو مہم شروع کی گئی ہے جس میں سات لاکھ بچوں کو پولیو سے بچاؤ کے قطرے پلائے جائیں گے۔
انسداد پولیو کے قومی مرکز کے معاون ڈاکٹر رانا محمد صفدر نے منگل کو وائس آف امریکہ کو بتایا کہ چونکہ اسلام آباد اور راولپنڈی کے علاقے ایک خطے میں واقع ہیں جہاں سے تقریباً پورے ملک کے لیے آمدورفت ہوتی ہے اس لیے یہاں پولیو وائرس کی موجودگی کا خطرہ ہمیشہ رہتا ہے۔
"چاہے فاٹا سے، پشاور سے پنجاب جانا ہو کراچی جانا ہو تو اسی جگہ سے ہو کر لوگ گزرتے ہیں تو یہاں وائرس کی آمد کو خطرہ ہمیشہ رہتا ہے اس لیے سیوریج سیمپل ہم باقاعدگی سے ہر ماہ جمع کرتے ہیں۔"
ان کے بقول گزشتہ ماہ حاصل کیے گئے نمونے میں پولیو وائرس کی موجودگی کا پتا چلا جس کے بعد اس خصوصی مہم کا انتظام کیا گیا جو پیر سے شروع کی جا چکی ہے۔
"پانچ سال سے کم عمر بچے جن کو یہ وائرس متاثر کر سکتا ہے ان کے لیے ہم یہ خصوصی مہم شروع کرتے ہیں تاکہ ان کی قوت مدافعت کو اس حد تک بڑھایا جائے کہ وائرس کی موجودگی کے باوجود ان کو وہ بیمار نہ کر سکے۔"
ڈاکٹر صفدر کا کہنا تھا کہ اس خصوصی مہم میں اسلام آباد کے تین لاکھ بچے جب کہ دیگر 70 سے زائد ایسی یونین کونسلز کے چار لاکھ بچوں کو قطرے پلائے جا رہے ہیں جن کا کسی نہ کسی طرح وائرس سے متاثرہ سیورج سے ربط ہو سکتا ہے۔
پاکستان اور افغانستان کا شمار دنیا کے ان دو ملکوں میں ہوتا ہے جہاں اس موذی وائرس پر تاحال پوری طرح قابو نہیں پایا جا سکا ہے۔ ایک عرصے تک نائیجیریا بھی اس فہرست میں شامل تھا لیکن دو سال قبل اسے پولیو سے پاک قرار دے دیا گیا تاہم گزشتہ برس یہاں پولیو کے کیسز رپورٹ ہونے کے بعد یہ دوبارہ موذی وائرس کے حامل ممالک میں شامل ہو گیا ہے۔
پولیو سے متاثرہ کیسز کی تعداد کے ضمن میں سال 2014ء پاکستان کے لیے بدترین سال ثابت ہوا جس میں ملک بھر سے 306 کیسز رپورٹ ہوئے۔ لیکن موثر اور متواتر کوششوں کے ذریعے اس وائرس کے پھیلاؤ پر حکام کے بقول 80 فیصد سے زائد قابو پایا جا چکا ہے۔
گزشتہ سال پاکستان بھر سے پولیو سے متاثرہ صرف 20 کیسز رپورٹ ہوئے تھے۔
انسداد پولیو کے قومی مرکز کے معاون ڈاکٹر صفدر کہتے ہیں کہ گزشتہ سال کی نسبت اس وقت صورتحال میں 75 فیصد سے زائد بہتری دیکھی جا رہی ہے۔
"اب تک دو کیسز رپورٹ ہوئے ہیں گزشتہ سال بیس کیسز تھے لیکن آج کی تاریخ تک ہمارے پاس گزشتہ سال آٹھ کیسز آ چکے تھے تو یہ 75 فیصد کمی ہے گزشتہ سال کی نسبت۔ 2016ء میں پاکستانی تاریخ میں پولیو کے کسی ایک سال میں سب سے کم کیسز رپورٹ ہوئے تھے۔
پولیو کے خاتمے کے لیے پاکستان اور افغانستان نے مربوط کوششوں پر بھی اتفاق کر رکھا ہے اور اس سلسلے میں قائم ٹیکنیکل ایڈوائزری گروپس ایک دوسرے سے استفادہ بھی کرتے رہتے ہیں۔
ڈاکٹر صفدر نے بتایا کہ رواں ماہ کے اواخر میں پاکستانی گروپ کا اجلاس ہو گا اور اپریل کے اوائل میں افغانستان اپنے گروپ کا اجلاس منعقد کرے اور اس بار یہ فیصلہ بھی کیا گیا ہے کہ دونوں ملکوں کے نمائندے ایک دوسرے کے اجلاس میں شریک ہو کر اس سے استفادہ کر سکیں گے۔