رسائی کے لنکس

کرک میں ہندو سمادھی کی بحالی کا کام شروع


فائل فوٹو
فائل فوٹو

سپریم کورٹ میں جمع کرائی گئی رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ ڈویژن اور ضلعی انتظامیہ کی مقامی مذہبی رہنماؤں کے ساتھ کئی ملاقاتیں ہوئیں جس کے بعد پانچ شرائط کے تحت مزار کی بحالی کا کام شروع کیا گیا۔

پاکستان میں عدالت عظمیٰ کی طرف سے سخت احکامات جاری ہونے کے بعد خیبرپختونخواہ کی صوبائی حکومت نے ضلع کرک میں ایک ہندو سمادھی کی بحالی پر کام شروع کر دیا ہے جسے 1997 میں مسمار کر دیا گیا تھا۔

رواں ہفتے خیبر پختونخوا کے ایڈیشنل ایڈووکیٹ جنرل نے عدالتِ عظمیٰ کو رپورٹ پیش کی جس میں بتایا گیا کہ یکم مئی کو ضلعی انتظامیہ نے پولیس کی بھاری نفری کی موجوگی میں ہندوؤں کے مقدس مقام شری پرم ہنس جی مہاراج کی سمادھی کا مقامی لوگوں کی طرف سے ناجائز قبضہ چھڑا کر اس کی بحالی کا کام شروع کر دیا ہے۔

پاکستان ہندو کونسل کے سرپرستِ اعلیٰ اور ممبر قومی اسمبلی ڈاکٹر رمیش کمار ونکوانی نے سپریم کورٹ میں پیش کی گئی رپورٹ پر اطمینان کا اظہار کیا ہے۔ انہوں نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ ’’ہندو اپنی بزرگ ہستیوں اور معصوم بچوں کو وفات کے بعد اگنی سنسکار (نظرِ آتش) کی بجائے دفن کرتے ہیں۔‘‘

انہوں نے گزشتہ برس فروری میں سمادھی کی بحالی کے لیے سپریم کورٹ میں درخواست دی تھی۔ عدالت عظمیٰ نے ان کا مؤقف تسلیم کرتے ہوئے اس سال مارچ میں خیبر پختونخوا کی حکومت کو حکم دیا تھا کہ وہ اس ہندو سمادھی کی پندرہ دن نے اندر بحالی اور تعمیرِ نو کر کے عدالت کو رپورٹ پیش کرے۔

تفصیلات کے مطابق پاکستان بننے سے قبل ہندو بزرگ شری پرم ہنس جی مہاراج کو 1919 میں انتقال کے بعد کرک کے قصبہ تیری میں دفن کیا گیا تھا۔ پاکستان بننے کے بعد اگرچہ ہندو آبادی وہاں سے نقل مقانی کر گئی تھی، مگر بعد میں بھی وہاں ہندو زائریں مزار کی زیارت کے لیے جاتے رہے۔ تاہم 1997 میں مقامی مسلمانوں نے سمادھی پر قبضہ کرکے اس کو مسمار کر دیا۔

سپریم کورٹ میں جمع کرائی گئی رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ ڈویژن اور ضلعی انتظامیہ کی مقامی مذہبی رہنماؤں کے ساتھ کئی ملاقاتیں ہوئیں جس کے بعد پانچ شرائط کے تحت مزار کی بحالی کا کام شروع کیا گیا۔

پہلی یہ کہ ہندو برادری علاقے میں اپنے عقائد کا پرچار نہیں کرے گی۔ دوسری، انہیں صرف دعا کی اجازت ہو گی۔ تیسری، انہیں سمادھی کے مقام پر کسی بڑے مذہبی اجتماع کی اجازت نہیں ہو گی۔ چوتھی، انہیں اس مقام پر عبادت کے لیے بڑی جگہ تعمیر کرنے کی اجازت نہیں ہو گی اور پانچویں یہ کہ انہیں اس جگہ مزید زمین خریدنے کی اجازت نہیں ہو گی اور ان کی سرگرمیاں سمادھی کے اندر تک محدود ہوں گی۔

تاہم پاکستان کے قانون اور آئین کے تحت کسی بھی مذہبی برادری پر اس قسم کی پابندی عائد نہیں کی جا سکتی۔ پاکستان کا قانون حکومت کو پابند کرتا ہے کہ وہ ملک آباد دیگر مذاہب سے تعلق رکھنے والوں کے مقدس مقامات کا تحفظ کرے۔ پاکستان کا آئین ملک میں آباد تمام لوگوں کو اپنے اپنے مذاہب پر عمل کرنے اور مذہبی اداروں کے قیام اور انتظام کی آزادی دیتا ہے۔

کرک کے رہائشی سمادھی کی بحالی کے حکم پر خوش ہیں۔ محمد غلام خٹک 1997 میں مزار مسمار کیے جانے کے وقت اپنے بیٹے کے ہمراہ وہاں موجود تھے۔

غلام محمد نے صوبائی حکومت کے اقدام کا خیر مقدم کرتے ہوئے کہا کہ کرک کے رہائشیوں کی اکثریت اس مزار کی بحالی چاہتی ہے ۔ ان کا خیال ہے کہ ایسا کرنا اس لیے ضروری ہے کیونکہ اس سے علاقے، ملک اور دنیا میں مذہبی رواداری کا پیغام جائے گا۔ اس کے علاوہ ہندو زائرین کے آنے سے علاقے کی معیشت میں بہتری آئے گی۔

ضلع کرک میں پشتونوں کا خٹک قبیلہ آباد ہے اور محمد غلام خٹک کے مطابق اس کے علاقے لوگ صوبے کے دیگر علاقوں کے مقابلے میں بہت پرامن ہیں اور مذہبی رواداری پر یقین رکھتے ہیں۔ ’’خٹک قوم چاہتی ہے کہ مقبرہ وہاں ہونا چاہئے کیونکہ ہمارے بہت سے مذہبی مقامات بھارت اور یورپ میں ہیں۔ اگر مزار کو ختم کر دیا جائے تو وہاں مسلمانوں کے مذہبی مقامات کو بھی نقصان پہنچایا جا سکتا ہے۔‘‘

ہندو برداری کی ایک بڑی تعداد صوبہ سندھ میں آباد ہے۔ توقع کی جاتی ہے مزار کی بحالی سے ملک اور ملک سے باہر سے ہندو زائرین کی کرک آمد سے علاقے کی معیشت میں بہتری آئے گی۔

ڈاکٹر رمیش کمار نے امید ظاہر کی کہ سمادھی کو عنقریب یاتریوں کے لیے کھول دیا جائے گا۔ انہوں نے کہا کہ جلد ہی پاکستان ہندوکونسل کا وفد صورتحال کا جائزہ لینے کے لیے کرک کا دورہ بھی کرے گا۔

XS
SM
MD
LG