پاکستان کے قبائلی علاقے مہمند ایجنسی میں دو بم دھماکوں میں کم ازکم چھ افراد ہلاک اور چار زخمی ہوگئے ہیں۔
مقامی ذرائع کے مطابق جمعہ کی شام تحصیل صافی کے گاؤں چناری میں ان دھماکوں کا نشانہ مقامی امن کمیٹی کے رضا کار تھے۔
مشتبہ شدت پسندوں کی طرف سے اس سے قبل بھی قبائلی علاقوں میں مقامی امن کمیٹیوں کے کارکنوں پر ہلاکت خیز حملے ہو چکے ہیں۔
دریں اثناء افغان سرحد سے ملحقہ قبائلی علاقے خیبر ایجنسی میں مشتبہ شدت پسندوں کے خلاف فوجی کارروائی میں کم ازکم پانچ مشتبہ شدت پسند ہلاک اور 10 کو زخمی ہو گئے۔
سرکاری ذرائع کے مطابق فوج نے ٹینکوں کی مدد سے خیبر ایجنسی کے علاقوں اکا خیل اور سپاہ میں شدت پسندوں کے ٹھکانوں کو نشانہ بنایا گیا۔
پاکستانی فوج نے گزشتہ ماہ خیبر ایجنسی میں "خیبر ون" کے نام سے آپریشن شروع کیا تھا جس کا مقصد شمالی وزیرستان میں جاری فوجی آپریشن کی وجہ سے مفرور عسکریت پسندوں کو یہاں منظم ہونے سے روکنا تھا۔
یہاں لڑاکا طیاروں اور گن شپ ہیلی کاپٹروں کی مدد سے کی گئی کارروائیوں میں درجنوں شدت پسندوں کو مارا جا چکا ہے۔
اکا خیل اور سپاہ میں کالعدم شدت پسند تنظیم لشکر اسلام اور متعدد دیگر شدت پسندوں کا مضبوط گڑھ تصور کیا جاتا ہے۔
ادھر کالعدم تحریک طالبان پاکستان نے لشکر اسلام کی حمایت کا اعلان کیا ہے۔
جمعہ کو ذرائع ابلاغ کو بھیجے گئے ایک پیغام میں شدت پسند تنظیم کا کہنا تھا کہ وہ لشکر اسلام اور دیگر شدت پسند گروپوں کی مکمل حمایت کرتی ہے اور ان کی مدد کے لیے بھی اقدامات کرے گی۔
پیغام میں طالبان نے محمد خراسانی کو اپنا نیا ترجمان مقرر کرنے کا کہا ہے۔ گزشتہ ماہ ہی کالعدم تنظیم نے اپنے ترجمان شاہد اللہ شاہد کو برطرف کرنے کا بتایا تھا۔
حکومت نے ملک سے دہشت گردی کے خاتمے کے لیے رواں سال کے اوائل میں طالبان سے مذاکرات شروع کیے تھے لیکن اس میں آنے والے تعطل اور دہشت گردانہ کارروائیاں جاری رہنے کے بعد پاکستانی فوج نے شدت پسندوں کے مضبوط گڑھ شمالی وزیرستان میں ضرب عضب کے نام سے بھرپور کارروائی شروع کی تھی۔
حکام کے مطابق اس کارروائی میں اب تک 1100 سے زائد ملکی و غیر ملکی شدت پسندوں کو ہلاک اور ان کے کمانڈر اینڈ کنٹرول نظام کو بھی تباہ کردیا گیا ہے۔
حالیہ ہفتوں میں تحریک طالبان پاکستان کے آپسی اختلافات بھی کھل کر سامنے آچکے ہیں اور اس میں شامل شدت پسندوں نے اپنے مختلف دھڑوں کا اعلان بھی کیا۔
مبصرین کا کہنا ہے کہ طالبان کی طرف سے سامنے آنے والے بیانات صرف توجہ حاصل کرنے کا حربہ ہو سکتے ہیں کیونکہ بھرپور فوجی کارروائی کے ذریعے انھیں شدید نقصان پہنچ چکا ہے اور وہ پہلے کی طرف مربوط دہشت گردانہ کارروائیاں کرنے کی صلاحیت تقریباً کھو چکے ہیں۔