رسائی کے لنکس

کراچی میں امن کے قیام کے لیے مربوط اقدامات پر زور


مبصرین کا کہنا ہے کہ گزشتہ نو ماہ میں ٹارگٹڈ آپریشن کے مطلوبہ نتائج برآمد نہ ہونے کی وجہ سکیورٹی ایجنسیوں کے درمیان رابطوں اور تعاون کی کمی اور اس مسئلے سے نمٹنے میں سیاسی عزم کا فقدان ہے۔

پاکستان کے سب سے بڑے شہر کراچی میں گزشتہ سال ستمبر میں پولیس اور رینجرز نے جرائم پیشہ عناصر کے خلاف مشترکہ ٹارگٹڈ آپریشن شروع کیا تھا۔ لیکن عہدیداروں کی طرف سے اس میں خاطر خواہ کامیابیوں کے دعوؤں کے باوجود شہر کے حالات میں بحیثیت مجموعی کوئی قابل ذکر بہتری دیکھنے میں نہیں آئی۔

کراچی کی ایک بااثر جماعت متحدہ قومی موومنٹ کی طرف سے شروع ہی سے اس آپریشن کا رخ ایم کیو ایم کے کارکنوں کی طرف رکھنے کا الزام عائد کیا جاتا ہے جس کی وفاقی و صوبائی حکومت تردید کرتی ہے۔

مبصرین کا کہنا ہے کہ گزشتہ نو ماہ میں ٹارگٹڈ آپریشن کے مطلوبہ نتائج برآمد نہ ہونے کی وجہ سکیورٹی ایجنسیوں کے درمیان رابطوں اور تعاون کی کمی اور اس مسئلے سے نمٹنے میں سیاسی عزم کا فقدان ہے۔

تجزیہ کار اور کراچی یونیورسٹی کے پروفیسر ڈاکٹر توصیف احمد خان نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں کہا کہ اب تک لیاری میں ہونے والے واقعات کے علاوہ ہدف بنا کر سیاسی کارکنوں کے قتل کے وارداتوں میں تو کمی دیکھی جارہی ہے لیکن شہر کے حالات جوں کے توں دکھائی دیتے ہیں۔

" بنیادی بات یہ ہے کہ اسلحہ کی فراہمی جاری ہے جو پاکستان کے مختلف علاقوں سے کراچی میں آتا ہے پولیس بھی وہی ہے سول نیٹ ورک بھی وہی ہے جب تک کہ عزم نہیں ہو گا صوبائی حکومت کا بھی وفاقی حکومت کا بھی اور ایم کیو ایم کا بھی اور وہ یہ طے نہیں کریں گے کہ کراچی میں امن قائم ہونا ہے اس وقت تک یہ بڑا مشکل ہے اور ساری فورسز ایک کمانڈ میں سنگل کمانڈ میں کام نہیں کریں گی جب تک کراچی کے حالات اچھے نہیں ہوں گے۔"

دو روز قبل ہی کراچی پولیس کی طرف سے ٹارگٹڈ آپریشن سے متعلق تفصیلات جاری کی گئیں جن کے مطابق گزشتہ سال ستمبر سے پہلے تین سو دنوں میں شہرمیں 2432 افراد مختلف وارداتوں میں موت کا شکار ہوئے جب کہ آپریشن شروع ہونے کے بعد اب تک کراچی میں مرنے والوں کی تعداد 1685 رہی جن میں 719 افراد ہدف بنا کر قتل کیے گئے۔

علاوہ ازیں بھتہ خوری اور اغوا برائے تاوان کی وارداتوں میں بھی کوئی خاطر خواہ کمی دیکھنے میں نہیں آئی اور ملک کے اس اقتصادی مرکز کی تاجر برادری اس صورتحال میں ہنوز پریشانی کا شکار ہے۔

کراچی چیمبر آف کامرس کے صدر عبداللہ ذکی نے اس صورتحال کو حقائق سے پردہ پوشی کا نتیجہ قرار دیا۔ صحافیوں سے گفتگو میں ان کا کہنا تھا۔

" ایک طرف ہم بھتہ مافیا سے لڑ رہے ہیں اغوا کی وارداتوں سے لڑ رہے ہیں بنیادی ڈھانچہ ہمارے پاس ہے نہیں پانی بجلی گیس ہمارے پاس ہے نہیں جی ایس پی پلس ہمیں ملا ہے دو بلین ڈالر کا ٹارگٹ ہم کس طرح حاصل کریں گے اوپر سے یہاں پر صاحب اختیار لوگ ہیں وہ غلط غلط باتیں کر کے مس گائیڈ کرتے ہیں گورنمنٹ کو میں سمجھتا ہوں اس وقت ہمیں صحیح باتیں کرنی چاہیئں اس وقت کراچی کا سوال ہے۔"

رواں ہفتے ہی وزیراعظم نواز شریف نے شہر کے امن و امان کی صورتحال سے متعلق کراچی میں ایک اعلیٰ سطحی اجلاس کی صدارت کی جس میں انھوں نے قانون نافذ کرنے والے اداروں کو جرائم پیشہ عناصر کے خلاف آپریشن تیز کرنے کی ہدایت کی تھی۔

XS
SM
MD
LG