لاہور کی ایک عدالت نے دوہرے قتل کے الزام میں گرفتار امریکی سی آئی اے کے ساتھ کام کرنے والے ایک کنٹریکٹر ریمنڈ ڈیوس کو رہا کر دیا ہے۔ جبکہ پاکستان میں امریکی سفیر کے مطابق ڈیوس کے خلاف امریکی محمکمہ انصاف نے تحقیقات کا آغاز کردیا ہے۔
امریکی سفیر کیمرون منٹرنے سفارت خانے سے جاری کیے گئے ایک بیان میں کہا کہ ریمنڈ ڈیوس کو مقتولین کے ورثاء نے معاف کردیا ہے جسکے نتیجے میں ریمنڈ ڈیوس کو رہا کردیا گیا ہے۔ انہوں نے اس اقدام ہر ورثاء کو شکریہ ادا کیا اور کہا کہ امریکی محمکمہ انصاف نے اس کیس سے متعلق تحقیقات کا آغاز کردیا ہے۔ انہوں نے اپنے بیان میں لاہور کو واقعے پر اپنے گہرے افسوس کا اظہار کیا۔
صوبہ پنجاب کے وزیر قانون رانا ثنا الله نے اس کی تصدیق کرتے ہوئے ذرائع ابلاغ کو بتایا ہے کہ بدھ کو کوٹ لکھ پت جیل میں اس مقدمے کی سماعت کے دوران ریمنڈ ڈیوس پر باضابطہ طور پر فردجرم عائد کی گئی، تاہم مقتولین کے ورثا نے عدالت کو مطلع کیا کہ اُنھوں نے قصاص و دیت کے تحت خون بہا وصول کر لیا ہے جس کے بعد سیشن کورٹ کے جج نے اس امریکی اہلکار کو رہا کرنے کا حکم جاری کیا۔
ان کا کہنا تھا’’مقتولین کے ورثا کو شرعاً اور قانوناً یہ حق حاصل ہے کہ وہ دیت وصول کرکے ملزم کو معاف کردیں، اس میں حکومت یا پراسی کیوٹر رکاوٹ نہیں ڈال سکتا‘‘۔ صوبائی وزیر قانو ن نے اُن اطلاعات پر تبصرہ کرنے سے گریز کیا کہ رہائی پانے کے بعد ریمنڈ ڈیوس کو فوری طور پر پاکستان سے باہر بھیج دیا گیا ہے۔
جیل حکام نے تصدیق کی ہے کہ ریمنڈ ڈیوس رہائی پانے کے بعد امریکی قونصل خانے کے افسران کے ساتھ جیل سے جا چکا ہے۔
36 سالہ ریمنڈ ڈیوس کو پولیس نے 27 جنوری کو لاہور میں اُس وقت گرفتار کیا تھا جب موٹر سائیکل پر سوار دو پاکستانیوں کو مبینہ طور پر قتل کرنے کے بعد وہ جائے وقوعہ سے فرار ہونے کی کوشش کر رہے تھے۔
تحقیقات کے دوران سی آئی اے کے کنٹریکٹر ڈیوس کا کہنا تھا کہ اس نے اپنے دفاع میں گولی چلائی تھی کیوں کہ مقتول مسلح تھے اور اُسے لوٹنا چاہتے تھے۔ لیکن پاکستانی پولیس نے ابتدائی تحقیقات کے بعد ڈیوس کے اس موقف کو مسترد کر کے اُن کے خلاف قتل کا مقدمہ درج کیا تھا۔
امریکہ ریمنڈ ڈیوس کی مسلسل رہائی کا مطالبہ کرتا آ رہا تھا اور اس کا موقف تھا کہ اس امریکی اہلکار کو سفارتی استثنا حاصل ہے۔