رسائی کے لنکس

سرفراز شاہ قتل کیس میں رینجرز اہلکارکو سزائے موت


سرفراز شاہ قتل کیس میں رینجرز اہلکارکو سزائے موت
سرفراز شاہ قتل کیس میں رینجرز اہلکارکو سزائے موت

کراچی میں انسدادِ دہشت گردی کی ایک خصوصی عدالت نے نہتے نوجوان سرفراز شاہ کو گولیاں مار کر ہلاک کرنے کے جرم میں رینجرز کے ایک اہلکار کو موت کی سزا سنائی ہے جب کہ اس مقدمے میں ملوث ایک نجی سکیورٹی گارڈ اور دیگر پانچ رینجرز اہلکاروں کو عمر قید کی سزا سنائی گئی ہے۔

عدالت نے سزائے موت پانے والے اہل کار شاہد ظفر پر دو لاکھ روپے اور دیگر مجرمان پر ایک ایک لاکھ روپے جرمانہ عائد کیا جو لواحقین کو ادا کیا جائے گا۔ عمر قید پانے والوں میں لیاقت علی، منٹھار علی، محمد افضل، محمد طارق ،بابو رحمان اور سکیورٹی گارڈ افسر خان شامل ہیں۔

جمعہ کو عدالت کے مختصر فیصلے سے ذرائع ابلاغ کے نمائندوں کو آگاہ کرتے ہوئے وکیلِ استغاثہ محمد خان بروڑو کا کہنا تھا کہ عدالت نے اپنے فیصلے میں واضح کیا ہے کہ ملزمان کے خلاف دہشت گردی کا فعل ثابت ہو چکا ہے۔

اُنھوں نے کہا کہ ملزمان کا یہ فعل ذاتی تھا اور اس سے رینجرز کے ادارے کا کوئی تعلق نہیں۔ ’’اس فیصلے سے یہ واضح ہو چکا ہے کہ پاکستان کی عدالتوں میں انصاف کا بول بالا ہے اور ان چند افراد کے فعل نے ملک اور رینجرز کے ادارے پر جو بدنما داغ چھوڑا تھا وہ عدالت کے اس فیصلے سے صاف ہو چکا ہے۔‘‘

سرفراز شاہ آٹھ جون کو کراچی کے بے نظیر بھٹو پارک میں رینجرز کی فائرنگ سے ہلاک ہو گیا تھا۔ رینجرز اہل کاروں کا کہنا تھا کہ مقتول ڈکیتی کی کوشش کے دوران مزاحمت پر مارا گیا۔ تاہم واقعہ کی حقیقت اس ویڈیو فوٹیج سے کھلی جس میں رینجرز کے ایک اہل کار کو اپنے ساتھیوں کی موجودگی میں ایک نہتے نوجوان پر گولیاں چلاتے دکھایا گیا۔ گولیاں لگنے کے بعد نوجوان رینجرز اہلکاروں سے اسے ہسپتال لے جانے کی اپیل کرتا رہا تاہم زیادہ خون بہہ جانے کی وجہ سے اس کی موت واقع ہو گئی۔ یہ ویڈیو فوٹیج مقامی میڈیا پر دن بھر نشر کی جاتی رہی۔

ویڈیو کے منظرِ عام پر آنے کے بعد پاکستان کی عدالت عظمیٰ نے اس واقعہ کا از خود نوٹس لیتے ہوئے انسدادِ دہشت گردی کی ایک عدالت کو روزانہ سماعت کرکے اس مقدمہ کا جلد از جلد فیصلہ سنانے کا حکم دیا۔ اس واقعہ کی غیر جانبدارانہ تحقیقات کو یقینی بنانے کے لیے سپریم کورٹ کے حکم پر حکومت نے سندھ رینجرز اور صوبائی پولیس کے سربراہان کو بھی ان کے عہدے سے ہٹا دیا تھا۔

اس واقعہ پر انسانی حقوق کی تنظیموں کے علاوہ قومی اسمبلی میں حکومتی و حزبِ اختلاف کے اراکین نے بھی سخت احتجاج کیا تھا۔ اپوزیشن نے اس واقعے کو ریاستی دہشت گردی قرار دیتے ہوئے مطالبہ کیا تھا کہ ذمہ داران کو سخت سے سخت سزا دی جائے، جس پر وزیرِ اعظم یوسف رضا گیلانی کا کہنا تھا کہ وہ ذاتی طور پر تحقیقات کی نگرانی کریں گے اور ملزمان کو انصاف کے کٹہرے میں لائیں گے۔

کراچی کی عدالت نے ان ملزمان پر 29 جون کو فردِ جرم عائد کی تھی، جس میں کہا گیا کہ ملزم شاہد ظفر نے سرفراز شاہ کو فائرنگ کرکے قتل کیا جو دہشت گردی کا عمل تھا اور اس سے عوام میں خوف و ہراس پیدا ہوا۔ تاہم ملزمان نے الزام قبول کرنے سے انکار کیا تھا۔

ادھر جمعہ کو عدالت کے اس فیصلے کے بعد وکیلِ صفائی نے کہا کہ ان کے موکل اپیل کا حق رکھتے ہیں اوراس فیصلے کو ہائی کورٹ میں چیلنج کریں گے۔ واضح رہے کہ عدالتی حکم کے خلاف اپیل سات روز میں داخل کی جا سکتی ہے۔

دوسری جانب مقتول سرفراز شاہ کے لواحقین نے فیصلے پر اطمینان کا اظہار کرتے ہوئے امید ظاہر کی ہے کہ اعلیٰ عدلتیں اس فیصلے کو برقرار رکھیں گی۔

XS
SM
MD
LG