اسلام آباد —
صحافیوں کو تحفظ فراہم کرنے کے موضوع پر اسلام آباد میں منگل کو پاکستان میں صحافیوں کی نمائندہ تنظیم (پی ایف یو جے) نے انٹرنیشنل فیڈریشن فار جرنلسٹس (آئی ایف جے) کے اشتراک سے ایک کانفرنس کا انعقاد کیا جس میں ملک بھر سے صحافیوں کے علاوہ آئی ایف جے کے عہدیداروں اور سیاسی شخصیات نے شرکت کی۔
اجلاس میں ملک میں صحافیوں پر بڑھتے ہوئے حملوں پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے حکومت سے مطالبہ کیا گیا کہ وہ صحافی برادری کو تحفظ فراہم کرنے کے لیے موثر اقدامات کرے۔
مقررین کا کہنا تھا کہ دہشت گردی کی وجہ سے ملک میں موجود امن و امان کی خراب صورت حال کے پیش نظر شعبہ صحافت سے وابستہ افراد کے لیے خطرات بڑھ گئے ہیں۔
آئی ایف جے کے نائب صدر کرس وارن نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں اس بات پر تشویش کا اظہار کیا کہ پاکستان میں ہلاک ہونے والے صحافیوں میں سے کسی ایک کے قاتل کو اب تک گرفتار نہیں کیا گیا۔
’’پاکستان کے لیے بڑا چیلنج وہ عزم ہے جس کے تحت موثر کارروائی کی جا سکتی ہے۔ ایسے قتل کے واقعات کی صحیح طریقے سے تحقیقات کی جانی چاہیے اور ملوث افراد کو کیفر کردار کو پہنچایا جائے مگر ان کے بقول پاکستان میں ایسا نہیں اور جس کی وجہ سے صحافیوں کے لیے حالات مزید خراب ہوں گے۔‘‘
آئی ایف جے کے عہدیدار کے مطابق پاکستان میں گزشتہ 13 برسوں میں 96 صحافی مارے گئے جب کہ ان میں سے 80 صحافی صرف گزشتہ چھ سالوں میں قتل ہوئے۔
وفاقی وزیر داخلہ رحمان ملک کا کہنا تھا کہ دیگر ممالک کی طرح پاکستان میں بھی صحافیوں کی جان کے تحفظ کی پہلی ذمہ داری ان کے اداروں کی ہونی چاہیئے اور انھیں اس حوالے سے اقدامات کرنے ہوں گے۔ انھوں نے کہا کہ اگر صحافیوں کی جانب سے اس حوالے سے تجاویز انھیں دی گئیں تو وہ تمام ذرائع ابلاغ کے اداروں کو احکامات بھی جاری کرسکتے ہیں۔
’’بچہ بھی جب دودھ مانگتا ہے تو ماں دودھ دیتی ہے۔ اس لیے آپ کو حکومت کو یاد کروانا ہوگا۔ اپنے کام کر وانے کے لیے اس کے پیچھے بھاگنا ہوگا۔‘‘
پی ایف یو جے کے سابق جنرل سیکرٹری شمس الاسلام ناز کہتے ہیں کہ صحافی برادری کو جانی و مالی طور پر تحفظ فراہم کرنے سے متعلق ان کی تنظیموں کی کوششوں کی سمت درست نہیں۔
’’قانون کے تحت مالی معاونت کی ذمہ داری اداروں کے مالکان کی ہے حکومت کی نہیں۔ مگر مالکان ذمہ داری لینے کو تیار ہی نہیں اورصحافیوں کی تنظیمیں اور متاثرہ خاندان حکومت کی طرف ہی دیکھتے ہیں۔ لگتا ہے کچھ علم کی کمی ہے۔‘‘
شمس الاسلام کا کہنا تھا کہ حکومت وقت پر تکیہ کرنے کی بجائے صحافیوں کے حقوق کے تحفظ کے لیے ملک میں موجود ان کی نمائندہ تنظیموں کو قوائد و ضوابط بنا کر پارلیمان سے منظور کرانے کی کوششیں کرنا ہوں گی جبکہ ذرائع ابلاغ کے شعبے میں ایک ضابطہ اخلاق بھی وقت کی ضرورت ہے۔
اجلاس میں ملک میں صحافیوں پر بڑھتے ہوئے حملوں پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے حکومت سے مطالبہ کیا گیا کہ وہ صحافی برادری کو تحفظ فراہم کرنے کے لیے موثر اقدامات کرے۔
مقررین کا کہنا تھا کہ دہشت گردی کی وجہ سے ملک میں موجود امن و امان کی خراب صورت حال کے پیش نظر شعبہ صحافت سے وابستہ افراد کے لیے خطرات بڑھ گئے ہیں۔
آئی ایف جے کے نائب صدر کرس وارن نے وائس آف امریکہ سے گفتگو میں اس بات پر تشویش کا اظہار کیا کہ پاکستان میں ہلاک ہونے والے صحافیوں میں سے کسی ایک کے قاتل کو اب تک گرفتار نہیں کیا گیا۔
’’پاکستان کے لیے بڑا چیلنج وہ عزم ہے جس کے تحت موثر کارروائی کی جا سکتی ہے۔ ایسے قتل کے واقعات کی صحیح طریقے سے تحقیقات کی جانی چاہیے اور ملوث افراد کو کیفر کردار کو پہنچایا جائے مگر ان کے بقول پاکستان میں ایسا نہیں اور جس کی وجہ سے صحافیوں کے لیے حالات مزید خراب ہوں گے۔‘‘
آئی ایف جے کے عہدیدار کے مطابق پاکستان میں گزشتہ 13 برسوں میں 96 صحافی مارے گئے جب کہ ان میں سے 80 صحافی صرف گزشتہ چھ سالوں میں قتل ہوئے۔
وفاقی وزیر داخلہ رحمان ملک کا کہنا تھا کہ دیگر ممالک کی طرح پاکستان میں بھی صحافیوں کی جان کے تحفظ کی پہلی ذمہ داری ان کے اداروں کی ہونی چاہیئے اور انھیں اس حوالے سے اقدامات کرنے ہوں گے۔ انھوں نے کہا کہ اگر صحافیوں کی جانب سے اس حوالے سے تجاویز انھیں دی گئیں تو وہ تمام ذرائع ابلاغ کے اداروں کو احکامات بھی جاری کرسکتے ہیں۔
’’بچہ بھی جب دودھ مانگتا ہے تو ماں دودھ دیتی ہے۔ اس لیے آپ کو حکومت کو یاد کروانا ہوگا۔ اپنے کام کر وانے کے لیے اس کے پیچھے بھاگنا ہوگا۔‘‘
پی ایف یو جے کے سابق جنرل سیکرٹری شمس الاسلام ناز کہتے ہیں کہ صحافی برادری کو جانی و مالی طور پر تحفظ فراہم کرنے سے متعلق ان کی تنظیموں کی کوششوں کی سمت درست نہیں۔
’’قانون کے تحت مالی معاونت کی ذمہ داری اداروں کے مالکان کی ہے حکومت کی نہیں۔ مگر مالکان ذمہ داری لینے کو تیار ہی نہیں اورصحافیوں کی تنظیمیں اور متاثرہ خاندان حکومت کی طرف ہی دیکھتے ہیں۔ لگتا ہے کچھ علم کی کمی ہے۔‘‘
شمس الاسلام کا کہنا تھا کہ حکومت وقت پر تکیہ کرنے کی بجائے صحافیوں کے حقوق کے تحفظ کے لیے ملک میں موجود ان کی نمائندہ تنظیموں کو قوائد و ضوابط بنا کر پارلیمان سے منظور کرانے کی کوششیں کرنا ہوں گی جبکہ ذرائع ابلاغ کے شعبے میں ایک ضابطہ اخلاق بھی وقت کی ضرورت ہے۔