پاکستان میں آزادیٔ اظہار اور صحافیوں کے حقوق کے لیے سرگرم تنظیم فریڈم نیٹ ورک کی حالیہ رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ گزشتہ چند برسوں کے دوران پاکستان میں ریاستی اہل کار صحافیوں کے خلاف مقدمات درج کرانے میں پیش پیش رہے ہیں تاکہ اُنہیں مبینہ قانونی معاملات میں الجھا کر اپنے پیشہ وارانہ فرائض کی ادائیگی سے روکا جا سکے۔
رپورٹ کے مطابق پاکستان میں پرنٹ میڈیا کے لیے کام کرنے والے صحافیوں کو الیکٹرانک میڈیا کے صحافیوں کے مقابلے میں امکانی طور پر مقدمات کا سامنا دو گنا زیادہ ہوتا ہے۔
صحافیوں کے خلاف جرائم میں سزا سے استثنیٰ کے خاتمے سے متعلق بدھ کو منائے گئے عالمی دن کے موقع پر فریڈم نیٹ ورک کی رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ پاکستان میں گزشتہ دو برسوں کے دوران متعدد صحافیوں کے خلاف حکومتی اہل کاروں نے مقدمات درج کرائے ہیں۔
رپورٹ میں 2018 اور 2019 میں درج کرائے گئے 17 مقدمات کا تجزیہ شامل کیا گیا ہے، جس کے مطابق ان میں سے 60 فی صد مقدمات کی سماعت مکمل نہ ہو سکی جس کی وجہ سے ان میں ملوث کیے گئے صحافیوں کو اپنی صفائی کا موقع نہیں مل سکا۔
رپورٹ کے مطابق قانونی مقدمات کے حوالے سے سندھ سب سے خطرناک صوبہ ہے جہاں دیگر تین صوبوں اور وفاقی دارالحکومت اسلام آباد کے مقابلے میں صحافیوں کے خلاف تین گنا زیادہ مقدمات درج کرائے گئے۔
رپورٹ کے مطابق ان میں سے ایک تہائی صحافیوں کے خلاف انسدادِ دہشت گردی، سائبر کرائمز ایکٹ کی خلاف ورزی اور ہتکِ عزت کی دفعات کے تحت مقدمات درج کرائے گئے۔
صحافیوں پر ریاستی اداروں کی شہرت کو نقصان پہنچانے کے الزامات بھی عائد کیے گئے۔ رپورٹ کے مطابق، ان میں سے اکثر غیر سنجیدہ نوعیت کے مقدمات تھے، لیکن صحافیوں کے لیے ان کے نتائج سنگین بھی ہو سکتے تھے۔
فریڈ م نیٹ ورک کے ایگزیکٹو ڈائریکٹر اقبال خٹک نے وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ یہ بات حیران کن ہے کہ صحافیوں کی خلاف زیادہ تر مقدمات پولیس اور وفاقی تحقیقاتی ادارے فیڈرل انویسٹی گیشن ایجنسی یعنی ' ایف ائی اے' کی طرف سے درج کروائے گئے ہیں۔
وہ کہتے ہیں کہ 2016 میں الیکٹرانک جرائم کی روک تھام کے لیے بنائے گئے قانون کے تحت بھی صحافیوں کے خلاف مقدمات درج کروانے کے واقعات سامنے آئے ہیں۔
اقبال خٹک کے بقول یہ صورت حال ان کے لیے حیران کن ہے کہ ریاست یا حکومت صحافیوں اور میڈیا کے لیے سہولتیں فراہم کرنے کی بجائے ان کی پیشہ وارانہ سرگرمیوں کی ادائیگی کی راہ میں روڑے اٹکا رہی ہے۔
اقبال خٹک کا کہنا تھا کہ پاکستان میں آزادی اظہارکی فضا تنگ ہونے میں کئی اور عوامل بھی ہیں اور اب حکومت بھی ان کی مشکلات میں اضافہ کر رہی ہے۔
وہ کہتے ہیں کہ صحافیوں کو ایسے مقدمات میں الجھایا جاتا ہے جن سے جان چھڑانا آسان نہیں ہوتا اور اکثر صورتوں میں ان کے پاس اپنے دفاع کے لیے وسائل بھی دستیاب نہیں ہوتے۔
دوسری طرف انسانی حقوق کمیشن کے سربراہ اور ابلاغ عامہ کے ماہر ڈاکٹر مہدی حسن کا کہنا ہے کہ اگرچہ انسانی حقوق کمیشن اورصحافتی تنظیمیں صحافیوں کے تحفط کے لیے آواز بلند کرتی آ رہی ہیں لیکن میڈیا ہاؤسز کو بھی اپنے صحافیوں کی قانونی مقدمات میں معاونت کرنی چاہیے۔
ہر چند کہ حکومت نے فریڈم نیٹ ورک کی رپورٹ پر تاحال کسی ردعمل کا اظہار نہیں کیا، لیکن ماضی میں حکومتی عہدے دار اس تاثر کو در کرتے آئے ہیں۔
پاکستان کے وزیر اعظم عمران خان متعدد بار یہ کہہ چکے ہیں پاکستان میں میڈیا کو جتنی آزادی حاصل ہے وہ شاید ہی کسی مغربی ملک میں بھی ہو۔ تاہم میڈیا کے حقوق کے سرگرم کارکن اس سے اتفاق نہیں کرتے۔
ان کا کہنا ہے کہ پاکستان کا شمار ان ممالک میں ہوتا ہے جہاں آزادی اظہار اور پریس کی آزادی کے لئےحکومتی سطح پر کئی اقدامات درکار ہیں۔