سابق سفیر ظفر ہلالی کا کہنا ہے کہ ''ہمیں ہر اس قدم کے بارے میں سوچنا چاہیے جس سے پاکستان کو مضبوط کیا جاسکے''۔ ان کے بقول، ''اگر حکومت اسرائیل سے تعلقات کے بارے میں سوچ رہی ہے تو یہ اچھی بات ہے''
پاکستان کے سابق صدر پرویز مشرف نے کہا ہے کہ پاکستان کو بھارت کا مقابلہ کرنے کے لیے اسرائیل کے ساتھ تعلقات قائم کرنے چاہئیں۔ سابق صدر نے یہ اعتراف بھی کیا ہے کہ انہوں نے اپنے دورِ حکومت میں اسرائیل کے ساتھ تعلقات کے قیام کے لیے بہت کام کیا تھا۔
دبئی میں ایک پریس کانفرنس سے خطاب میں سابق صدر نے کہا کہ ''پاکستان اگر تھوڑی سی بھی کوشش کرے تو اسرائیل سے تعلقات بہتر ہوسکتے ہیں''۔
ان کے بقول، ''پاکستان اسلامی دنیا کا ایک مضبوط اور بڑا ملک ہے؛ اور اسرائیل سمجھتا ہے کہ اگر اس کے پاکستان سے تعلقات اچھے ہوجائیں تو اس کے اثرات پوری مسلم دنیا پر پڑیں گے''۔
پاکستان کے سابق صدر کا یہ بیان ایسے وقت سامنے آیا ہے جب موجودہ حکومت کی اسرائیل سے متعلق پالیسی پر سوالات اٹھائے جا رہے ہیں؛ اور بعض حلقے کہتے ہیں کہ موجودہ حکومت اسرائیل سے روابط قائم کرنے کی خواہش رکھتی ہے۔
گزشتہ سال اکتوبر میں ایک اسرائیلی طیارے کے مشکوک انداز میں اسلام آباد اترنے اور گھنٹوں قیام کی خبریں گرم ہوئی تھیں، جس کی گونج پاکستان کی پارلیمان میں بھی سنائی دی۔ حکومت کو اس کی تردید کرنا پڑی کہ اسرائیلی طیارے کے اسلام آباد ایئر پورٹ پر اترنے کی افواہ میں کوئی صداقت نہیں۔
بات یہیں نہیں رکی بلکہ پاکستان کے صدر عارف علوی کو بھی وضاحت کے لئے آنا پڑا جب گذشتہ سال اکتوبر کے ماہ ہی وہ استنبول دورے پر جا رہے تھے۔ صدر عارف علوی کے مطابق، اسرائیل کے ساتھ تعلقات کی نہ کوئی تجویز زیر غور آئی ہے نہ اسرائیل کے ساتھ تعلقات استوار کیے جا رہے ہیں۔
تاہم، یہ سوال ابھی تک حل طلب ہے اس مشکوک طیارے کے سوار کون تھے اور یہ پرواز پاکستان کیا کرنے اتری تھی۔
بعد ازاں پاکستان کی وزارتِ داخلہ کا ایک نوٹی فکیشن موضوعِ بحث بنا رہا تھا جس میں اسرائیلی شہریوں کو پاکستان آمد کی مشروط اجازت دی گئی تھی۔ لیکن حکومت نے اس نوٹی فکیشن کو بھی غلط فہمی کا نتیجہ قرار دیا تھا۔
گزشتہ ہفتے ہی ایک بھارتی اخبار نے پاکستان کے وزیرِ خارجہ سے منسوب یہ بیان شائع کیا کہ پاکستان اسرائیل سے تعلقات بڑھانے کا خواہاں ہے۔ لیکن مقامی میڈیا میں اس کی خبریں چلنے پر شاہ محمود قریشی نے بیان کو مسخ شدہ قرار دیتے ہوئے اس سے لاتعلقی کا اظہار کردیا تھا۔
حکومت کے مسلسل تردیدی بیانات کے باوجود، تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ اسرائیل کے بارے میں پاکستان کے رویے میں نرمی آئی ہے۔
سابق سفیر ظفر ہلالی کا کہنا ہے کہ ''ہمیں ہر اس قدم کے بارے میں سوچنا چاہیے جس سے پاکستان کو مضبوط کیا جاسکے''۔ ان کے بقول، ''اگر حکومت اسرائیل سے تعلقات کے بارے میں سوچ رہی ہے تو یہ اچھی بات ہے''۔
ظفر ہلالی کہتے ہیں کہ ہم اس لئے اسرائیل کو تسلیم نہیں کرتے کہ فلسطینی یہ نہ سمجھیں کہ دیگر مسلم ممالک کی طرح ہم نے بھی انہیں تنہا چھوڑ دیا ہے۔ لیکن، بھارت اسرائیل کے بڑھتے دفاعی روابط کو دیکھتے ہوئے اگر پاکستان اور اسرائیل کے موقف میں ہم آہنگی آتی ہے تو اس میں کوئی حرج نہیں۔
تاہم، جنرل ریٹائرڈ طلعت مسعود کہتے ہیں کہ یہ کہنا کہ بھارت اور اسرائیل کے بڑھتے تعلقات کو روکنے کے لئے اسرائیل سے تعلقات قائم کرنا غلط فہمی ہے، کیونکہ بہت سے ایسے ممالک ہیں جن سے پاکستان اور بھارت دونوں کے اچھے تعلقات ہیں۔ اُن کے خیال میں اگر پاکستان اسرائیل کو تسلیم کرتا ہے تو کشمیر پر اس کا موقف کمزور ہوگا، جبکہ ہم عوامی سطح پر یہ رائے رکھتے ہیں کہ فلسطین کی آزادی تک اسرائیل کو تسلیم نہیں کیا جائے گا۔ ایسے موحول میں، حکومت اگر ایسا سوچ رہی ہے تو ملکی سطح پر اس کے لئے ایک نیا مسئلہ کھڑا ہو سکتا ہے۔
اسرائیل پاکستان کے قیام کے ایک سال بعد 1948ء میں قائم ہوا تھا۔ لیکن، پاکستان ان مسلم ملکوں میں شامل ہے جنہوں نے فلسطین کے تنازع کے باعث اسرائیل کو تسلیم نہیں کیا ہے اور ان کے اسرائیل سے سفارتی تعلقات نہیں۔
پاکستان میں اسرائیل کے ساتھ تعلقات کی استواری ایک حساس موضوع رہا ہے جس پر بات کرنے سے گریز کیا جاتا تھا۔ لیکن، سعودی عرب سمیت پاکستان کے کئی اتحادی عرب ملکوں کے اسرائیل کے ساتھ مبینہ رابطوں کی تفصیلات سامنے آنے کے بعد اب پاکستان میں بھی اسرائیل کے ساتھ تعلقات کے قیام کے حق میں آوازیں اٹھنے لگی ہیں۔