افغانستان کے ایک اعلیٰ عہدیدار کی طرف سے شدت پسند تنظیم داعش کے جنگجوؤں کی مدد سے متعلق الزامات کو پاکستان نے بے بنیاد قرار دے کر مسترد کیا ہے۔
افغانستان کے قومی سلامتی کے مشیر حنیف اتمر نے بدھ کو ملک کے مشرقی صوبے جلال آباد کے دورے کے موقع پر پاکستان کا براہ راست نام لیے بغیر یہ الزام لگایا تھا کہ اُن کے ملک میں داعش کے جنگجوؤں کو باہر سے مدد فراہم کی جا رہی ہے۔
حنیف اتمر کا موقف تھا کہ افغانستان میں سرگرم داعش کے جنگجوؤں کی اکثریت کا تعلق پاکستان سے ہے۔
افغانستان کے قومی سلامتی کے مشیر کے بیان پر ہفتہ وار نیوز بریفنگ کے دوران پوچھے گئے ایک سوال کے جواب میں پاکستانی دفتر خارجہ کے ترجمان نفیس ذکریا نے کہا کہ ان الزامات میں کوئی حقیقت نہیں ہے۔
نفیس ذکریا نے کہا کہ ’’یہ بے بنیاد الزمات ہیں‘‘ اور اس طرح کے بیانات سے صرف اُن کو فائدہ ہو سکتا ہے جو افغانستان میں امن و استحکام نہیں دیکھنا چاہتے اور دونوں ملکوں کے نازک تعلقات کو نقصان پہنچانا چاہتے ہیں۔
افغانستان کے قومی سلامتی کے مشیر کا یہ بھی الزام تھا کہ اُن کے ملک میں دہشت گردی کے کارروائیاں کرنے والوں کو پاکستان میں محفوظ پناہ گاہیں میسر ہیں۔
افغان عہدیداروں کی طرف سے ماضی میں بھی پاکستان پر افغان طالبان کی حمایت اور اُنھیں پناہ دینے کے الزامات عائد کیے جاتے رہے ہیں تاہم اس سے قبل افغانستان کی طرف سے پاکستان پر یہ الزام نہیں لگا کہ وہ داعش کے جنگجوؤں کی مدد کر رہا ہے۔
پاکستانی وزارت خارجہ کے ترجمان نفیس ذکریا کا کہنا تھا کہ پاکستان دہشت گردوں اور انتہا پسندوں کے خلاف مربوط کوششوں کے لیے پرعزم ہے اور اُن کے بقول پوری دنیا ان کاوشوں سے آگاہ ہے۔
واضح رہے کہ رواں ہفتے افغانستان کے صوبہ ننگر ہار میں افغان فورسز نے داعش کے 135 سے زائد جنگجوؤں کو ہلاک کرنے کا دعویٰ کیا تھا۔
افغان عہدیداروں کے مطابق ان جھڑپوں میں 12 افغان سکیورٹی اہلکار بھی مارے گئے تھے۔
سرحدی نگرانی سے متعلق اُمور پر اختلافات کے باعث حالیہ ہفتوں میں پاکستان اور افغانستان کے تعلقات میں تناؤ دیکھا گیا جب کہ افغانستان میں امن و مصالحت کے عمل میں پیش رفت نا ہونے پر بھی افغان عہدیدار پاکستان سے شکوہ کرتے رہے ہیں۔
تاہم گزشتہ ہفتے پاکستان کے صدر ممنون حسین اور اُن کے افغان ہم منصب اشرف غنی کے درمیان تاشقند میں شنگھائی تعاون تنظیم کے سربراہ اجلاس کے موقع پر ہونے والی ملاقات کے بعد اس توقع کا اظہار کیا جا رہا تھا کہ دوطرفہ تعلقات میں کچھ بہتری آئی گی۔