پاکستان کی عدالت عظمٰی کو ایک تحریری بیان میں بتایا گیا کہ انٹیلی جنس ادارے ’آئی ایس آئی‘ نے گزشتہ چار ماہ کے دوران 25 ہزار سے زائد ٹیلی فون کالز ٹیپ کی ہیں۔
لیکن اس بارے میں مزید تفصیلات نہیں بتائی گئیں کہ ان ٹیلی فون کالز کو کیوں ’ٹیپ‘ کیا گیا اور وہ لوگ کون تھے جن کے ٹیلی فون کی نگرانی کی گئی۔
سپریم کورٹ کے جج جسٹس ثاقب نثار کی سربراہی میں قائم تین رکنی بینچ کے سامنے بدھ کو یہ ریکارڈ پیش کیا گیا، عدالت عظمٰی کا یہ بینچ انٹیلی جنس اداروں کی طرف سے ٹیلی فون ٹیپ کرنے سے متعلق خبروں کے از خود نوٹس کی سماعت کر رہا ہے۔
عدالت کو بتایا گیا کہ صرف مئی کے مہینے میں لگ بھگ 7000 ٹیلی فون کالز ٹیپ کی گئیں۔
ڈپٹی اٹارنی جنرل ساجد الیاس بھٹی نے ایک سیل بند لفافے میں یہ اعداد و شمار بدھ کو عدالت عظمیٰ کے بینچ کے سامنے پیش کیے۔
عدالت کی طرف سے بتایا گیا کہ رواں سال فروری میں 6,523، مارچ میں 6,742، اپریل میں 6,742 اور مئی میں 6,856 ٹیلی فون کالز ٹیپ کی گئیں۔
ڈپٹی اٹارنی جنرل نے عدالت سے یہ استدعا بھی کی کہ جمع کروائی گئی تفصیلات کو منظرعام پر نا لایا جائے اور اس معاملے کی سماعت بند کمرے یا چیمبر میں کی جائے۔
عدالت نے ڈپٹی اٹارنی جنرل ساجد الیاس سے کہا ہے کہ وہ انٹیلی جنس ادارے کے متعلقہ عہدیدار کے ہمراہ پیش ہو کر اس بارے میں بینچ کو آگاہ کریں جس کے بعد ہی یہ فیصلہ کیا جائے کہ سماعت بند کمرے میں کی جائے یا نہیں۔
سپریم کورٹ کے بینچ نے ڈپٹی اٹارنی جنرل سے کہا کہ وہ حکومت سے یہ بھی معلوم کر کے بتائیں کہ ٹیلی فون کالز کس قانون کے تحت ٹیپ کی جا رہی ہیں۔
واضح رہے کہ ٹیلی فون کالز کو ٹیپ کرنے سے معاملے کا نوٹس 1996 میں ملک کے اُس وقت کے چیف جسٹس سجاد علی شاہ نے لیا جب اُن ٹیلی فون کو ٹیپ کرنے کے آلات برآمد ہوئے تھے۔
لیکن اس از خود نوٹس پر مختلف وجوہات کی بنا پر سماعت کا سلسلہ جاری نا رہ سکا، جسٹس ثاقب نثار نے کہا کہ اس معاملے کی اہمیت کا اس بات سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ ملک کے چیف جسٹس کا ٹیلی فون بھی ’ٹیپ‘ کرنے کی کوشش کی گئی۔