پاکستان کے مرکزی بینک نے کہا ہے کہ ملک میں گزشتہ مہینے افراط زر میں اضافے کی وجہ سے روز مرہ استعمال کی زیادہ تر چیزوں کی قیمتوں میں اضافہ ہوا ہے۔
حال ہی میں جاری کی گئی رپورٹ کے مطابق تعلیم، ادوایات اور مکانوں کے کرایوں اور قیمتوں میں نمایاں اضافہ ریکارڈ کیا گیا ہے۔ مبصرین کا کہنا ہے کہ افراط زر میں اضافے کی بڑی وجہ بین الاقوامی منڈی میں تیل کی قیمتوں میں اضافہ ہے۔
اگرچہ گزشتہ دو سالوں کے زیادہ تر عرصے میں عالمی مارکیٹ میں تیل کے قیمتیں کم ہونے کی وجہ سے پاکستان میں بھی ان میں کمی ہوتی رہی تاہم حالیہ مہینوں میں ملک میں تیل کی قیمتوں میں گرانی افراط زر کی شرح بڑھنے کا سبب بنی اور اس سے روزمرہ اشیا کی قیمتوں میں بھی اضافہ دیکھنے میں آیا ہے۔
اسٹیٹ بینک کی رپورٹ کے مطابق رواں سال جنوری میں مکانوں کے کرایوں میں ساڑھے چھ فیصد سے زائد اضافہ ریکارڈ کیا گیا جب کہ گزشتہ سال اسی مہینے میں یہ اضافہ ساڑھے پانچ فیصد سے کم تھا۔
اسی طرح شعبہ تعلیم میں بھی اخراجات میں اضافہ ہوا اور رپورٹ کے مطابق جنوری میں یہ شرح 12.73 فیصد رہی۔ دوسری طرف ادویات کی قیمتوں میں اضافہ دیکھنے میں آیا جو 22.8 فیصد رہا جبکہ گزشتہ سال اس عرصے کے دوران ادوایات کی قیمتوں میں بہت کم اضافہ ہوا تھا۔
اقتصادی امور کے تجزیہ کار ڈاکٹر عابد سلہری نے وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان میں افراط زر میں حالیہ اضافے کی وجہ تیل کی قیمتوں میں اضافے کے ساتھ ساتھ پاکستانی روپے کی قدر میں ڈالر کے مقابلے میں کمی بھی ہے۔
" ہم نے دیکھا پچھلے دو سال میں جب افراط زر کی شرح تھوڑی کنٹرول میں تھی اس کی بنیادی وجہ عالمی منڈیوں میں تیل کی قیمتوں میں کمی تھی اور جوں ہی تیل کی قیمتوں میں ا ضافہ ہوا آپ کو ہر چیز مہنگی ہوتی نظر آئی۔ اور دوسرا اس میں بڑی وجہ ہے جو بہت زیادہ محسوس نہیں کیا جاتا ہے وہ ڈالر کے مقابلے میں روپے کی قدر میں کمی ہونا ہے اور جب بھی ڈالر کے مقابلے میں روپے کی قدر میں کمی آئے گی تو قیمتوں میں اضافہ ہو گا تو ان چیزوں کی قیمتوں میں اضافہ ہو گا جن کا بظاہر زرمبادلہ سے کوئی تعلق نہیں ہے۔"
انہوں نے کہا کہ جہاں تک مکانوں کی قمیتوں اور کرائے میں اضافے کا تعلق ہے تو اس کی وجہ حکومت کی طرف سے جائیداد کی خرید وفرخت پر ٹیکسوں کی شرح میں اضافہ ہے۔
" جب پراپرٹی سے متعلق ٹیکس کی شرح میں اضافہ ہوا تو یہ ٹیکس مکان خریدنے والے شخص کو ہی ادا کرنا پڑتا ہے۔"
تاہم حکمران جماعت مسلم لیگ (ن) کے راہنما اور قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی برائے امورخزانہ کے رکن طلال چوہدری نے کہتے ہیں کہموجودہ حکومت کے دور میں افراط زر کی مجموعی شرح گزشتہ سالوں کی نسبت سب سے کم رہی۔
" اگر چند ایک چیزوں میں طلب اور رسد کی وجہ سے فرق ہونے کی وجہ سے۔۔۔۔یا تعلیمی اداروں کی فیسوں میں سالانہ اضافے کی وجہ سے کئی دفعہ اس میں فرق ضرور آتا ہے تاہم کئی درجن چیزیں جن پر افراط زر کا تعین کیا جاتا ہے ان میں یہ ایک یا دو ہے لیکن اگر آپ مجموعی طور پر دیکھیں تو اس دور میں افراط زر کی شرح بہت کم رہی۔"
عابد سلہری نے کہا کہ پاکستان میں روزمرہ اشیائے ضروری کی قیمتوں کی نگرانی کے موثر نظام کا فقدان ہے اور ان کے بقول یہ نا صرف صوبائی حکومتوں بلکہ مقامی حکومتوں کی بھی ذمہ داری ہے کہ وہ غیر ضروری طور پر قیمتوں میں اضافے کے رجحان کو کنٹرول کریں۔