رسائی کے لنکس

معاشی بہتری کے دعوؤں کے باوجود پاکستان میں مہنگائی کیوں بڑھ رہی ہے؟


پاکستان میں حزبِ اختلاف کی جماعتیں مہنگائی اور دیگر معاملات پر حکومتی کارکردگی کے خلاف جلسے کر رہی ہیں تو وہیں پاکستان کی حکومت کا یہ دعویٰ ہے کہ بہتر اقتصادی پالیسیوں کی وجہ سے معاشی صورتِ حال بہتر ہو رہی ہے۔

لیکن حالیہ عرصے کے دوران عوام پاکستان میں اشیائے ضروریہ کی قیمتوں میں اضافے کی شکایات کرتے دکھائی دیتے ہیں۔

مہنگائی اور حکومت کو ناکام قرار دیتے ہوئے حزبِ اختلاف کی جماعتوں نے ملک گیر احتجاجی تحریک چلا رکھی ہے جس کا آئندہ جلسہ 22 نومبر کو پشاور میں ہو گا۔

حکومتی وزرا کی جانب سے معاشی اشاریوں میں بہتری کے دعووں کے باوجود تحریک انصاف کے دو سال سے زائد عرصے میں عوام کے لیے اشیائے ضروریہ کی قیمتوں میں مسلسل اضافے کا رجحان جاری ہے۔

پاکستان میں مہنگائی کے اعداد و شمار جاری کرنے والے سرکاری ادارے وفاقی ادارہ شماریات کے مطابق مالی سال 20-2019 میں مہنگائی کی اوسط شرح 10.74 فی صد رہی۔

مہنگائی میں اس اضافے کا زیادہ دباؤ غذائی اشیا کی قیمت پر پڑا ہے اور اکتوبر میں سالانہ بنیاد پر اشیا خورد و نوش کی قیمتوں میں 16.53 فی صد اضافہ ریکارڈ کیا گیا۔

واضح رہے کہ پاکستان میں مالی سال 2018-19 میں مہنگائی کی شرح مجموعی طور پر 6.8 فی صد ریکارڈ کی گئی تھی جو مالی سال 18-2017 میں 4.68 فی صد تھی۔

اگر سالانہ بنیاد پر قیمتوں میں اس اضافے کو دیکھا جائے تو گندم کی قیمت 52.21 فی صد، آٹا 24.67 فی صد، چاول 8.6 فی صد، انڈے 43.32 فی صد اور چینی 32.97 فیصد بڑھی۔

وفاقی ادارہ شماریات کے مطابق ایک پاکستانی اپنی آمدنی کا اوسطاً 34.58 فی صد کھانے پینے کی اشیا پر خرچ کرتا ہے۔ اشیا خور و نوش کی قیمتیں بڑھنے سے مہنگائی مزید بڑھنے کا اندیشہ برقرار ہے۔

وزیر اعظم عمران خان کا کہنا ہے کہ ملک کی معاشی سمت درست ہے۔
وزیر اعظم عمران خان کا کہنا ہے کہ ملک کی معاشی سمت درست ہے۔

پاکستان کے مرکزی بینک نے بھی ستمبر کے آخر میں اپنی زرعی پالیسی میں غذائی اجناس کی رسد میں رکاوٹوں کی وجہ سے مہنگائی کے بڑھنے کے بارے میں اشارہ کیا تھا۔

'معاشی اشاریے درست، مہنگائی میں کمی لائیں گے'

وزیر اعظم عمران خان نے حکومتی معاشی و سیاسی کمیٹی سے خطاب میں کہا کہ دو سال میں معیشت کو پیروں پر کھڑا کردیا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ اپوزیشن اپنی سیاست بچانے کے لیے عوام کو گمراہ کررہی ہے اور رہنماؤں کو تاکید کی کہ وہ عوام کو بتائیں کہ سابقہ حکومتوں کی غلط پالیسیوں کا خمیازہ عوام بھگت رہے ہیں۔

وزیرِ اعظم نے حالیہ مہینوں میں مہنگائی میں اضافے پر کئی بار تشویش کا اظہار اور وفاقی وزرا کو قیمتوں میں کمی کے اقدامات کی ہدایات جاری کی ہیں۔

وزیرِ اعظم عمران خان نے حالیہ مہنگائی کی وجہ ذخیرہ اندوزی کو قرار دیا دیتے ہوئے کہا تھا کہ ان کے خلاف اقدامات سے قیمتوں میں جلد کمی کو ممکن بنایا جائے گا۔

دوسری جانب حزبِ اختلاف کی جماعتوں کے اتحاد پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ (پی ڈی ایم) مہنگائی میں اضافے کو حکومت کی ناکامی قرار دیتی ہے۔

حزبِ اختلاف کے رہنماؤں کا کہنا ہے کہ موجودہ حکومت عوام کے مسائل حل کرنے میں ناکام ثابت ہوئی ہے اور اس کی معاشی پالیسیوں نے ملک کو مالی بحران میں مبتلا کردیا ہے۔

حزبِ مخالف اتحاد نے حکومت کو ناکام قرار دے کر اس کے خاتمے کے لیے احتجاجی تحریک چلا رکھی ہے۔

غذائی اشیا کی قیمتوں میں اضافہ مہنگائی کی وجہ؟

پاکستان میں حالیہ ہفتوں میں مہنگائی کی شرح میں اضافے کی بڑی وجہ 'فوڈ انفلیشن' یعنی غذائی اشیا کی قیمتوں میں اضافہ ہے۔

ادارہ شماریات کے مطابق اشیا خور و نوش کی قیمتیں بڑھنے سے مہنگائی مزید بڑھنے کا اندیشہ برقرار ہے۔

مہنگائی کی شرح ڈبل فگر میں جانے کے بعد حکومتی تخمینوں سے تجاوز کرگئی ہے۔

سمندر پار پاکستانیوں کے اہل خانہ بھی مہنگائی سے تنگ
please wait

No media source currently available

0:00 0:01:41 0:00

حکومت نے رواں مالی سال کے لیے سالانہ افراطِ زر کی حد 6 فی صد مقرر کی تھی لیکن مہنگائی کی یہ شرح فروری میں ہی تجاوز کر گئی تھی۔

پاکستانی ادارہ شماریات کے ڈائریکٹر عتیق الرحمن کہتے ہیں کہ حالیہ سالوں میں مہنگائی میں اضافہ برقرار رہا ہے جس میں کھانے پینے کی اشیا کی قیمتیں زیادہ بڑھی ہیں۔

وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ شہری اپنی آمدن کا سب سے زیادہ حصہ خوراک پر صرف کرتے ہیں اور مہنگائی میں اضافہ اس وجہ سے بھی برقرار ہے کہ کھانے پینے کی اشیا کی قیمتیں مسلسل بڑھتی رہی ہیں۔

عتیق الرحمن کہتے ہیں کہ ڈالر کے مقابلے میں روپے کی قدر میں اضافہ اور پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں کمی کے اثرات آئندہ مہینوں میں سامنے آنا شروع ہو جائیں گے اور دسمبر کے بعد سے افراطِ زر میں کمی واقع ہونے کی توقع ہے۔

حکومت نے رواں سال فروری میں بڑھتی ہوئی مہنگائی کنٹرول کرنے کے لیے اشیا خور و نوش کی قیمتوں پر سبسڈی کے لیے 10 ارب روپے کے پیکیج کا اعلان کیا تھا۔

اشیائے خورونوش کی قیمتوں میں اضافے کے ساتھ ساتھ پاکستان کی آبادی کے ایک بڑے حصے کو خوراک کی کمی کا بھی سامنا ہے۔

2018 میں کیے گئے نیشنل نیوٹریشن سروے کے مطابق ملک کی 37 فی صد آبادی غذائی قلت کا شکار ہے۔

بدھ کو وزیر اعظم عمران خان کی صدارت میں ہونے والے مشترکہ مفادات کونسل (سی سی آئی) کے اجلاس میں ملک میں خواتین اور بچوں میں غذا کی کمی کے مسئلے پر قابو پانے کے لیے 350 ارب روپے کی لاگت کا منصوبہ شروع کرنے پر اتفاق کیا گیا۔

اس منصوبے سے ملک کی 30 فی صد آبادی مستفید ہوگی جس میں ماں بننے کی عمر کی ڈیڑھ کروڑ خواتین اور دو سال تک کی عمر کے 39 لاکھ بچے شامل ہوں گے۔

XS
SM
MD
LG