پاکستان اور بھارت کے درمیان غیر رسمی سفارتی کاری یعنی ٹریک ٹو، مذاکرات کا دو روزہ اجلاس جمعے کو اسلام آباد میں شروع ہوا جس میں پاکستان اور بھارت کے نوجوان صحافیوں، دانشوروں اور سول سوسائٹی کے نمائندوں نے شرکت کی۔
بھارت کے زیر اتنظام کشمیر کے علاقے پلوامہ میں رواں سال فروی میں ہونے والے حملے کے بعد پیدا ہونے والی انتہائی کشیدہ صورت حال کے بعد دونوں ملکوں کے درمیان غیر سرکاری سطح پر پہلا رابطہ ہے۔
اسلام آباد میں قائم غیر سرکاری ادارے رینجل پیس انسٹی ٹیوٹ کے تحت ہونے والی غیر رسمی بات چیت کے جمعے کو ہونے والے پہلے اجلاس میں بھارت اور پاکستان کے غیر سرکاری وفود نے شرکت کی۔
ان مذاکرات کا آخری اجلاس ہفتے کو ہو گا جس میں پاکستان اور بھارت کے سفارت کاروں کی شرکت بھی متوقع ہے۔ ان غیر رسمی مذکرات کے اجلاس کے پہلے دور میں پاکستان اور بھارت کی سول سائٹی، صحافیوں، دانشوروں اور رائے عامہ پر اثر انداز ہونے والے افراد نے دونوں ملکوں کے باہمی تنازعات کے حل، اور دونوں ملکوں کے درمیان اعتماد سازی کے لیے معاون اقدامات پر تبادلہ خیال کیا۔
اسلام آباد میں ایک تھنک ٹینک کے سربراہ روف حسن نے وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے کہا کہ غیر رسمی سفارت کاری پاکستان اور بھارت کے تعلقات کو معمول پر لانے میں معاون کردار تو ادا کر سکتی ہے، تاہم پاکستان اور بھارت اگر اپنے تعلقات کو معمول پر لانے کے لیے سنجیدہ ہیں تو ان کے بقول اس کے لیے بلاتعطل بات چیت کا عمل شروع کرنا ضروری ہے۔
غیر رسمی مذاکرات میں شریک، بھارتی شہر نئی دہلی میں واقع ساؤتھ ایشیئن یونیورسٹی کے پروفیسر دھنن جے ترپاٹھی نے کہا کہ پاکستان اور بھارت کے باہمی تنازعات کا حل بات چیت ہی سے ممکن ہے۔
انہوں نے کہا "اگر دونوں ملکوں کے درمیان بات چیت معطل رہے گی تو یہ کسی کے بھی مفاد میں نہیں ہے۔ ٹریک ٹو کا سب سے بڑا فائدہ یہ ہے کہ اس میں سول سوسائٹی کے نمائندہ افراد اور صحافی شامل ہوتے ہیں جو رائے عامہ اور پالیسی بنانے پر اثر انداز ہو سکتے ہیں۔ "
انہوں نے مزید کہا "ٹریک ٹو سفارت کاری میں جب ہم شامل ہوتے ہیں تو کسی سرکاری دباؤ کے بغیر کھل کر بات چیت کر سکتے ہیں اور اس لیے ان کے بقول پاکستان اور بھارت کے درمیان سرکاری رابطوں کے ساتھ ساتھ سول سوسائٹی کے پائیدار رابطوں کو استوار کرنا ضروری ہے۔"
دوسری طرف سلامتی کے امور کے تجزیہ کار طلعت مسعود کا کہنا ہے کہ پاکستان اور بھارت کے تعلقات نہایت پیچیدہ ہیں جن کا حل اسلام آباد اور نئی دہلی کے درمیان سفارتی سطح پر بات چیت سے ہی ممکن ہے۔
انہوں نے کہا کہ "ٹریک ٹو میں ہم نے یہ دیکھا ہے کہ زیادہ تر خیالات اور جو مشورے دیے جاتے ہیں وہ ایک لحاظ سے سرکاری موقف کی عکاسی کرتے ہیں اور ٹریک ٹو میں بھی بھارت اور پاکستان کی حکومت کا موقف برقرار رہتا ہے۔"
تاہم تجزیہ کار طلعت مسعود نے کہا کہ"ٹریک ٹو سے ایک رابطہ شروع ہو جاتا ہے جس کی وجہ سے بات چیت کا سلسلہ شروع ہو جاتا ہے جس کی وجہ سے پاکستان اور بھارت کے باہمی تعلقات بہتر ہونے کی امید بندھ جاتی ہے۔"