پلوامہ خود کش حملے کے بعد پاکستان اور بھارت کے درمیان کشیدگی کی صورت حال میں سعودی عرب کے ولی عہد محمد بن سلمان نے پاکستان اور بھارت کا اپنا دورہ مکمل کر لیا جس کے اثرات نظر آنا شروع ہو گئے ہیں۔
دورے کے بعد دونوں ملکوں کے درمیان کشیدگی میں بظاہر کمی دکھائی دے رہی ہے۔ نئی دہلی میں بعض سیاست دانوں کی جانب سے پاکستان کے خلاف دیے جانے والے سخت بیانات میں بھی کمی آئی ہے اور نیوز چینلوں کی زبان بھی قدرے نرم ہو گئی ہی۔
حملے کے بعد بھارت میں پاکستان کے خلاف شدید برہمی تھی۔ وزیر اعظم مودی نے بھی حملے کے ذمے داروں کے خلاف کارروائی کا بیان دیا تھا۔ پاکستان میں سرگرم کالعدم گروپ جیش محمد نے حملے کی ذمے داری قبول کرنے کا دعویٰ کیا تھا۔
محمد بن سلمان نے پاکستان میں 20 بلین ڈالر کی سرمایہ کاری کا اعلان کیا اور بھارت میں 100 بلین ڈالر کی سرمایہ کاری کے مواقع کی بات کہی۔ جب کہ بھارت نے پاکستان کے فنڈز روکنے اور اسے عالمی سطح پر تنہا کرنے کی کوشش شروع کرنے کا اعلان کیا تھا۔
دورے سے قبل سعودی عرب کے نائب وزیر خارجہ عادل الجبیر نے ایک بیان میں کہا تھا کہ ریاض پاکستان اور بھارت کے درمیان کشیدگی کو کم کرانے کی کوشش کرے گا۔
محمد بن سلمان نے نئی دہلی میں جاری ہونے والے مشترکہ بیان میں پاکستان کا نام نہیں لیا البتہ انتہاپسندی اور دہشت گردی کو بھارت اور سعودی عرب کی مشترکہ تشویش قرار دیا تھا۔
مودی نے بھی پاکستان کا نام نہیں لیا تھا جس پر کانگریس پارٹی نے ان پر نکتہ چینی کی۔
بین الاقوامی امور کے ایک ماہر رہیس سنگھ نے وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے کہا کہ بھارت اور سعودی عرب کے رشتوں کو پاکستان کے تناظر میں نہیں دیکھنا چاہیے۔ دونوں باتیں الگ الگ ہیں۔ البتہ ایک بات مشترک ہے اور وہ دہشت گردی ہے۔
سعودی عرب بھی نہیں چاہتا کہ پاکستان دہشت گردی کی اعانت کرے۔ لیکن وہ اپنی علاقائی مجبوریوں کی وجہ سے پاکستان کو اپنا قریبی دوست بھی رکھنا چاہتا ہے۔
رہیس سنگھ کہتے ہیں ولی عہد کے دورے کے بعد دونوں ملکوں کے درمیان کشیدگی میں کسی حد تک کمی آئی ہے۔
انھوں نے بھارت میں پاکستان کے خلاف ماحول کے لیے میڈیا کو بھی ذمے دار ٹھہرایا اور کہا کہ نیوز چینلوں نے جنگی جنون پیدا کرنے کی کوشش کی۔ لیکن ایم بی ایس کے دورے کے بعد میڈیا کی زبان بدلی ہے۔ ولی عہد نے اس کے منہ پر زنجیر لگائی ہے اور پیغام دیا ہے کہ سنبھل کر بولنا چاہیے۔
مشرق وسطیٰ کے امور کے ماہر اور جامعہ ہمدرد نئی دہلی کے پروفیسر اشتیاق دانش کے خیال میں دونوں ملکوں بالخصو ص بھارت نے اس دورے سے زیادہ فائدہ اٹھانے کی کوشش کی۔
انھوں نے کہا کہ بھارت نے پاکستان کو الگ تھلگ کرنے کے بارے میں محمد بن سلمان سے بھی بات کی۔ لیکن اب دنیا بہت سمجھدار ہو گئی ہے۔ کشمیر دونوں ملکوں کا ایک پرانا مسئلہ ہے۔ دنیا کے ملکوں نے اپنی سفارتی زبان وضع کر لی ہے۔
محمد بن سلمان نے بھی یہی کیا۔ انھوں نے دونوں ملکوں میں کوئی ایسا بیان نہیں دیا جس سے دوسرے کو پریشانی ہو۔
اشتیاق دانش پلوامہ حملے کے حوالے سے کہتے ہیں کہ دنیا کو سب کچھ معلوم ہے۔ اس بارے میں کچھ ہونے والا نہیں ہے۔ بھارت بہت کرے گا تو سرجیکل اسٹرائیک کر سکتا ہے لیکن پچھلی بار شاید اس کو کامیابی مل گئی تھی کیونکہ پاکستان کو توقع نہیں تھی۔ البتہ اس بار پاکستان نے بھی تیاری کی ہے لہٰذا اس میں کامیابی ملنی مشکل ہے۔
خیال رہے کہ پاکستان سرجیکل اسٹرائیک کرنے کے بھارت کے دعوے کو مسترد کرتا ہے۔
پروفیسر دانش کے خیال میں ایم بی ایس کا دورہ جمال خشوگی کے قتل کے بعد دنیا میں بگڑتی اپنی ساکھ کو بہتر بنانے کے لیے ہو رہا ہے۔
انھوں نے یہ بھی بتایا کہ مہاراشٹر کے کسی علاقے میں ایک تیل ریفائنری کے سلسلے میں بھارت اور سعودی عرب میں سمجھوتہ ہوا ہے لیکن اس کا ذکر میڈیا میں نہیں ہوا۔ اس پر 40 بلین ڈالر لاگت آئے گی اور سعودی عرب سرمایہ لگائے گا۔ لیکن اس سے قبل ہی وہاں کے کسانوں نے سخت مخالفت شروع کر دی ہے جس کی وجہ سے یہ معاملہ التوا میں چلا گیا ہے۔