پاکستان کے اعلیٰ ترین سفارتکار نے دعویٰ کیا ہے کہ بھارت ان کے ملک میں دہشت گردی کی مسلسل حمایت اور متنازع علاقے کشمیر میں لائن آف کنٹرول پر فائربندی کی خلاف ورزیوں کو بڑھا کر مغربی سرحد پر پاکستانی فوج تعینات کرنے کی استعداد کو کمزور کر رہا ہے۔
یہ بات وزیراعظم کے مشیر برائے امور خارجہ سرتاج عزیز نے منگل کو "جنوبی ایشیا میں امن و تعاون کا فروغ، مراعات و رکاوٹیں" کے موضوع پر اسلام آباد میں منعقدہ سیمینار سے خطاب میں کہی۔
دونوں ہمسایہ ایٹمی قوتوں کے مابین تعلقات حالیہ مہینوں سے شدید کشیدہ چلے آرہے ہیں جس میں خاص طور پر لائن آف کنٹرول اور ورکنگ باؤنڈری پر فائرنگ و گولہ باری کا تبادلہ تقریباً معمول بن چکا ہے۔
دونوں ملک فائربندی معاہدے کی خلاف ورزی میں پہل کا الزام ایک دوسرے پر عائد کرتے ہیں۔
سرتاج عزیز کا کہنا تھا کہ خطے میں اسٹریٹیجک استحکام کے لیے پاکستان اور بھارت کے تعلقات بہت اہم ہیں اور ان کے بقول عدم استحکام کے نتائج بہت خطرناک ہوں گے لہذا کم سے کم قابل بھروسہ دفاعی صلاحیت برقرار رکھنے کی ضرورت ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ پاکستان خودمختاری اور جغرافیائی سالمیت کے باہمی احترام کی بنیاد پر پرامن بقائے باہمی پر یقین رکھتا ہے لیکن وہ خطے کی موجودہ صورتحال سے لاتعلق نہیں رہ سکتا۔
"جب بھی ہمارے بھارت کے ساتھ مذاکرات ہوں گے ہم تعلقات کو معمول پر لانے کی کوشش جاری رکھیں گے اور ایسے اقدام کی ترویج کریں گے کہ جو تمام تصفیہ طلب معاملات بشمول کشمیر کے حل کی راہ متعین کریں۔"
بھارت کی طرف سے سرتاج عزیز کے اس بیان پر تو کوئی ردعمل سامنے نہیں آیا ہے لیکن وہ اس سے قبل اسلام آباد کی طرف سے پاکستان کو غیر مستحکم کرنے کے لیے لگائے جانے والے الزامات کو مسترد کرتے ہوئے دعویٰ کرتا آیا ہے کہ پڑوسی ملک خطے بشمول بھارت میں دہشت گردی کی معاونت کر رہا ہے۔
پاکستان ان دعوؤں کو مسترد کر چکا ہے۔
امریکہ کا کہنا ہے کہ وہ پاکستان اور بھارت کے درمیان حالیہ کشیدہ صورتحال پر نظر رکھے ہوئے ہے اور واشنگٹن چاہتا ہے کہ دونوں ملک تناؤ میں کمی کے اقدام کرتے ہوئے معاملات کو بات چیت کے ذریعے حل کرنے کی کوشش کریں۔
دریں اثنا پاکستانی وزارت خارجہ کے مطابق منگل کو بھارت کے ڈپٹی ہائی کمشنر جے پی سنگھ کو طلب کر اُن سے پیر کو ’لائن آف کنٹرول‘ پر ہونے والی فائرنگ میں چار شہریوں کی ہلاکت پر احتجاج کیا گیا۔
پاکستان کا کہنا ہے کہ پیر کو لائن آف کنٹرول پر جندروٹ، نکیال، کیرلا اور بروہ سیکٹرز میں فائرنگ سے 10 شہری زخمی بھی ہوئے۔
بیان کے مطابق پاکستان کی وزارت خارجہ میں تعینات ڈائریکٹر جنرل برائے جنوبی ایشیا اور سارک ڈاکٹر محمد فیصل نے 14 نومبر کو بھارتی نیوی کی ایک آبدوز کی طرف سے پاکستان کی آبی حدود کی مبینہ خلاف ورزی کی بھی مذمت کی۔
بھارت پاکستان کے اس دعویٰ کی تردید کر چکا ہے کہ اُس کی آبدوز پاکستانی آبی حدود کے قریب پہنچ گئی تھی۔
اپنے ڈپٹی ہائی کمشنر کی وزارت خارجہ طلبی پر بھارت کی طرف سے کوئی ردعمل سامنے نہیں آیا ہے۔