پاکستان میں روس کے سفیر الیکسی ڈیڈوف نے کہا ہے کہ پاکستان اور بھارت کو کشمیر کا مسئلہ ’’شملہ سمجھوتے اور اعلان لاہور کے تحت دوطرفہ بات چیت سے حل کرنا چاہیے‘‘۔
روس کےسفیر نے یہ بات سرکاری سرپرستی میں کام کرنے والے ادارے 'اسلام آباد پالیسی ریسرچ انسٹی ٹیوٹ' میں بدھ کو پاکستان اور روس کے تعلقات سے متعلق دئے گئے ایک لیکچر میں کہی۔
سفیر ڈیڈوف نے کہا کہ ’’کشمیر کی صورت حال نہایت پیچدہ اور نازک ہے‘‘، اور ان کے بقول، ’’روس کا مستقل مؤقف رہا ہےکہ اسلام آباد اور دہلی اس مسئلہ کو کا حل دونوں ملکوں کے دمیان دوطرفہ طور پر طے پانے والے شملہ معاہدے اور اعلان لاہور کے فریم ورک کے تحت حل کریں‘‘۔
کشمیر کے معاملے پر روس کی طرف سے کسی بھی قسم کا کردار ادا کرنے کے بارے میں پوچھے گئے سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ یہ اسی صورت میں ممکن ہے جب دونوں فریق اس کی درخواست کریں۔
تاہم، روس کے سفیر ڈیڈوف نے کہا ہےکہ وہ ’شنگھائی تعاون تنظیم‘ کے پلیٹ فارم سے پاکستان اور بھارت کو قریب لانے کی کوشش کر رہے ہیں۔
واضح رہے کہ پاکستان اور بھارت گزشتہ سال شنگھائی تعاون تنظیم کے باضابطہ طور پر مکمل رکن بنے جس میں چین اور روس کے علاوہ ازبکستان، تاجکستان قزاقستان اور کرغزستان بھی شامل ہیں۔
روس کے سفیر کا یہ بیان ایک ایسے وقت سامنے آیا ہے جب پاکستان اور بھارت کے تعلقات حالیہ برسوں کے دوران کشیدہ چلے آرہے ہیں، جس کی وجہ سے معمول کے سفارتی تعلقات میں تعطل رہا ہے؛ اور مبصرین کا کہنا ہےکہ پاکستان اور بھارت کے باہمی تناؤ اور کشیدگی کی ایک بڑی وجہ مسئلہ کشمیر ہے اور دونوں ملکوں کے درمیان دیرپا امن کے لیے اس مسئلے کو حل کرنا ضروری ہے۔
سلامتی کے امور کے تجزیہ کار طلعت مسعود نے بدھ کو وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے کہا ہے کہ، ان کے بقول، ’’روس یہ چاہتا ہے کہ بھارت اور روس کے تعلقات بہتر ہوں‘‘۔
اُنھوں نے کہا کہ "روس یہ سمجھتا ہے کہ اگر پاکستان اور بھارت کے تعلقات بہتر ہوں گے تو پھر ماسکو کو اسلام آباد سے تعلقات بڑھانے میں کوئی مسئلہ درپیش نہیں ہوگا۔"
انہوں نے مزید کہا کہ "روس کی سوچ یہ بھی ہوگی کہ اگر ان دو ملکوں کے تعلقات بہتر ہوں تو ناصرف اس سے روس کے لیے تجارت کی نئی راہیں کھل سکتی ہیں بلکہ یہ سارے خطے کے مفاد میں ہوگا۔"
روس اور پاکستان کے تعلقات کا ذکر کرتے ہوئے، سفیر ڈیڈوف نے کہا کہ ’’پاکستان روس کا ایک اہم شراکت دار ہے جس کے ساتھ ان کےباہمی مفاد پر مبنی مختلف شعبوں میں تعاون ہے‘‘۔
انہوں نے کہا کہ ’’روس کے لیے پاکستان اہم حیثتت کا حامل ملک ہے اور اس کے ساتھ تعاون صرف انسداد دہشت گردی تک ہی محدود نہیں ہے، بلکہ بنیادی ڈھانچے کی ترقی، توانائی شعبوں اور دفاعی شعبوں میں تعاون بھی اس میں شامل ہے‘‘۔
سفیر ڈیڈوف نے مزید کہا کہ "ہمیں اس بات کی خوشی ہے کہ پاکستان ’شنگھائی تعاون تنظیم‘ کے دائرہ کار خاص طور پر انسداد دہشت گردی کی مشترکہ کوششوں میں بھی شامل ہے۔"
سول نیوکلئیر سپلائر گروپ کے لیے پاکستان کا رکن بننے کی خواہش سے متعلق پوچھے گئے ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا روس نے کبھی بھی اعتراض نہیں کہ کیا کہ پاکستان اس گروپ کا رکن نہیں بنا سکتا۔ تاہم، انہوں نے کہا کہ اس معاملے سے متعلق اگر اتفاق رائے پایا جاتا ہے تو روس پاکستان اور بھارت دونوں کی حمایت کرے گا۔
پاکستان اور بھارت ایک عرصے سے "نیوکلیئر سپلائرز گروپ" کی رکنیت کے لیے کوشاں ہے۔ لیکن، تاحال اس ضمن میں دونوں ملکوں کو کامیابی حاصل نہیں ہوئی ہے۔