بھارت کی وزیر خارجہ سشما سوراج کے اس بیان پر کہ کشمیر کبھی بھی پاکستان کا حصہ نہیں ہو گا، پاکستان کا کہنا ہے کہ کشمیر کے بارے میں ایسا کوئی بھی فیصلہ صرف کشمیری عوام کر سکتے ہیں نہ کہ بھارتی وزیر خارجہ۔
اتوار کو دفتر خارجہ سے جاری ایک بیان میں پاکستانی مشیر خارجہ سرتاج عزیز کا کہنا تھا کہ کشمیریوں کو یہ حق دینے کا وعدہ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل نے کیا ہے اور ان کے بقول اب وقت ہے کہ بھارت جموں و کشمیر کے لوگوں کو یہ حق استعمال کرنے کی اجازت دے اور جب اکثریت پاکستان یا بھارت کے ساتھ رہنے کا فیصلہ کرے تو پوری دنیا کشمیری عوام کے فیصلے کو تسلیم کرے گی۔
بھارتی وزیرخارجہ نے ہفتہ کو پاکستان کے وزیراعظم نواز شریف کے اس بیان پر تنقید کی تھی جس میں انھوں نے کہا تھا کہ وہ دن دور نہیں جب کشمیر کا پاکستان کے ساتھ الحاق ہوگا اور وہ پاکستان کا حصہ ہوگا۔
کشمیر شروع ہی سے دونوں ہمسایہ ایٹمی قوتوں کے درمیان متنازع ہے اور اس کا ایک حصہ پاکستان اور ایک بھارت کے زیر انتظام ہے۔
رواں ماہ ایک کشمیری علیحدگی پسند کمانڈر کی بھارتی سکیورٹی فورسز کے ہاتھوں ہلاکت اور اس کے بعد ہونے والے مظاہروں کے دوران بھی سکیورٹی فورسز سے جھڑپوں میں 45 سے زائد افراد کے مارے جانے پر پاکستان نے شدید تشویش کا اظہار کیا تھا اور گزشتہ بدھ کو ملک میں یوم سیاہ منایا تھا۔
اس معاملے کو لے کر دونوں روایتی حریفوں کے درمیان ایک بار پھر کشیدگی دیکھی جا رہی ہے اور بھارت نے پاکستانی تشویش کو مسترد کرتے ہوئے متنبہ کیا تھا کہ وہ اس کے اندرونی معاملات میں مداخلت نہ کرے۔
بھارتی وزیرخارجہ نے مارے جانے والے علیحدگی پسند کمانڈر برہان وانی کو پاکستان کی طرف سے ہیرو قرار دینے پر بھی افسوس کا اظہار کیا تھا جس پر پاکستانی مشیر خارجہ سرتاج عزیز نے بیان میں کہا کہ بھارت اس بات سے صرف نظر نہیں کر سکتا ہے کہ کرفیو کے باجود بھارتی کشمیر میں دو لاکھ سے زائد افراد نے وانی کے جنازے میں شرکت کی۔
ان کا کہنا تھا کہ پاکستان کی حکومت اور عوام کشمیریوں کی حق خودارادیت کی تحریک کی سیاسی و سفارتی حمایت کے عزم پر قائم ہیں۔
انھوں نے ایک بار پھر اقوام متحدہ اور بین الاقوامی برادری پر زور دیا کہ وہ بھارتی کشمیر میں انسانی حقوق کی مبینہ خلاف ورزیوں کا نوٹس لے اور اس کی روک تھام کے لیے اپنا کردار ادا کرے۔
بھارت، پاکستان پر یہ الزام بھی عائد کرتا ہے کہ وہ کشمیر میں مشتبہ دہشت گردوں کی حمایت کرتا ہے لیکن اسلام آباد ان دعوؤں کو مسترد کرتا ہے۔
دونوں ملکوں کی طرف سے حالیہ دنوں میں تناؤ پر مبنی بیانات سامنے آتے رہے ہیں جسے مبصرین دو طرفہ تعلقات اور خطے میں امن کے لیے مضر قرار دیتے ہیں۔