پاکستان اور بھارت نے گزشتہ سال شنگھائی تعاون تنظیم ' ایس سی او'کا مکمل رکنے بننے کے بعد پہلی بار چین میں ہونے والے تنظیم کے اجلاس میں شرکت کی ہے۔
چین کے صدر شی جن پنگ نے اتوار کو چین کے شمالی ساحلی شہر چنگ ڈاؤ میں ہونے والے 'ایس سی او' کے اجلاس میں پاکستان کے صدر ممنون حسین اور بھارت کے وزیر اعظم نریندر مودی کو خوش آمدید کہا۔ چینی صدر نےکہا کہ تنظیم کے اجلاس میں صدر ممنون اور وزیر اعظم موجودگی شرکت تاریخی اہمیت کی حامل ہے۔
اس موقع پر شنگھائی تعاون تنظیم کے اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے صدر ممنون نے خطے اور خاص طور پر افغانستان میں امن کے لیے پاکستان کے عزم کا اعادہ کیا ۔
انہوں نے کہا " افغانستان میں امن و استحکام ہماری مشترکہ خواہش ہے یہ مقصد افغان قیادت اور عوام کی مکمل آمادگی اور اس عمل کی قبولیت کے ذریعے ہی ممکن ہے۔ اس سلسلے میں ایس سی او کے تحت افغان رابطہ گروپ کا قیام خوش آئند ہے ۔"
انہوں نے مزید کہا " پاکستان افغانستان میں امن واستحکام کے لیے ہمیشہ کی طرح اپنا فراخدالانہ تعاون جاری رکھے گا اور آپ کو جان کر یہ خوشی ہو گی کہ پاکستان اور افغانستان دوطرفہ بنیادوں پر ان ہی مقاصد کے لیے ایک جامع لائحہ عمل کے تحت کام کررہے ہیں۔ "
صدر ممنون نے افغان صدر اشرف غنی کی طرف سے طالبان کو جنگ بندی کی پیش کش اور اسے طالبان کی طرف سے قبول کرنے کو ایک مثبت پیش رفت قرار دیا۔
شنگھائی تعاون تنظیم کے سربراہ اجلاس کے دوران پاکستانی صدر ممنون حسین اور بھارتی وزیر اعظم نرندر مودی نے مصافحہ کرتے ہوئے مختصر گفتگو کی۔ تاہم اجلاس کے دوران پاکستان اور بھارت کے سربراہان کے درمیان براہ راست بات چیت کا کوئی امکان نہیں ہے۔ البتہ پاکستانی صدر پروگرام کے مطابق چین، ایران، اذبکستان اور تاجکستان کے سربراہان سے براہ راست ملاقاتیں کر رہے ہیں جن میں اس تنظیم کے تحت کثیر جہتی تعاون کو مزید فروغ دینے کے حوالے سے بات چیت کی جائے گی۔
بھارتی میڈیا کے مطابق بھارت کے علاوہ تنظیم کے تمام رکن ممالک نے چین کے کھربوں ڈالر کے بیلٹ اور روڈ پروگرام BRI کی بھرپور حمایت کا اظہار کیا ہے۔ پاکستان سے گزرنے والی اقتصادی راہداری کا منصوبہ اسی بڑے منصوبے کا حصہ ہے۔ بتایا جاتا ہے کہ بھارتی وزیر اعظم مودی کے اس منصوبے کی حمایت سے انکار کی وجہ یہ ہے کہ اقتصادی راہداری کا منصوبہ پاکستان کے زیر انتظام کشمیر کے علاقے سے بھی گزرتا ہے۔
بین الاقوامی امور کے تجزیہ کار ظفر جسپال نے کہا کہ پاک بھارت کشیدگی کم کرنے میں بھی شنگھائی تعاون تنظیم کا کردار اہم ہو گا۔
" اطلاعا ت کے مطابق چین نے اس توقع کا اظہار کیا ہے کہ وہ پاکستان اور بھارت کے باہمی معاملات کو شنگھائی (تعاون تنظیم ) کے فریم ورک کے تحت حل کرنے کی کوشش کریں گے ۔۔۔ مگر میرے خیال میں پاک بھارت باہمی مسائل کو حل کرنے کے لیے بہت زیادہ عزم کی ضرورت ہے۔"
ظفر جسپال کہتے ہیں کہ افغانستان میں امن واستحکام کے لیے امریکہ کے ساتھ ساتھ شنگھائی تعاون تنظیم میں شریک روس اور چین بھی اہم کردار ادا کرسکتے ہے۔
" شنگھائی تنظیم کا مقصد شدت پسندی اور عسکریت پسندی کا خاتمہ کرنا ہے افغانسان میں داعش کی بڑھتی ہوئی عسکریت پسندی پر سب کو تشویش ہے افغان حکومت اور طالبان بھی اس سے متاثر ہو رہے ہیں تو شنگھائی تعاون تنظیم کے رکن ممالک کی تشویش کی وجہ سے اس مسئلے کو ختم کرنے میں سب اتفاق کر سکتے ہیں۔" انہوں نے کہا
پاکستان اور بھارت گزشتہ سال شنگھائی تعاون تنظیم کی باضابطہ طور پر مکمل رکن بنے جس میں چین اور روس کے علاوہ ازبکستان، تاجکستان قزاقستان اور کرغزستان بھی شامل ہیں جبکہ افغانستان، بیلاروس، ایران اور منگولیا تنظیم کے اجلاسوں میں بطور مبصر ملک شرکت کرتے ہیں۔