پاکستان اور بھارت کے خارجہ سیکرٹریوں کے درمیان منگل کو نئی دہلی میں تفصیلی ملاقات ہوئی۔
پاکستانی وزارت خارجہ کے مطابق سیکرٹری اعزاز احمد چوہدری نے اپنے بھارتی ہم منصب ایس جے شنکر سے ملاقات میں بھارتی انٹیلی جنس ایجنسی ’را‘ کی پاکستان کے صوبہ بلوچستان کے علاوہ کراچی میں مبینہ تخریبی سرگرمیوں پر تشویش کا اظہار کیا۔
وزارت خارجہ سے جاری بیان کے مطابق سیکرٹری خارجہ اعزاز احمد چوہدری نے کہا ہے کہ اس طرح کی کارروائیاں تعلقات کو معمول پر لانے کی کوششوں کو متاثر کرتی ہیں۔
اُنھوں نے حال ہی میں پاکستان میں حراست میں لیے گئے ’را‘ کے ایک مبینہ افسر کلبھوشن یادیو کی گرفتاری پر اپنے بھارتی ہم منصب سے بھی بات کی۔
پاکستان کے سیکرٹری خارجہ اعزاز احمد چوہدری نے دوطرفہ جامع مذاکرات کے جلد انعقاد کی ضرورت پر زور دیا۔ دونوں ملکوں نے بامعنی مذاکراتی عمل جاری رکھنے کے عزم کا بھی اظہار کیا۔
پاکستان کے سیکرٹری خارجہ اعزاز احمد چوہدری افغانستان سے متعلق ’ہارٹ ایشیا کانفرنس‘ میں شرکت کے لیے منگل کو ہی نئی دہلی پہنچے تھے۔
پاکستانی وزارت خارجہ کے ترجمان نفیس ذکریا نے سماجی رابطے کی ویب سائیٹ ’ٹوئیٹر‘ کے ذریعے تفصیلات بتاتے ہوئے کہا کہ اس ملاقات سے دوطرفہ معاملات کے بارے میں تبادلہ خیال کا ایک اہم موقع ملا۔
نفیس ذکریا کے مطابق ملاقات میں کشمیر سمیت تمام حل طلب معاملات پر بات چیت کی گئی۔
سیکرٹری خارجہ اعزاز احمد چوہدری نے کہا کہ کشمیر بنیادی مسئلہ ہے، جسے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی قراردادوں کے مطابق حل کرنے کی ضرورت ہے۔
پاکستانی سیکرٹری خارجہ نے کہا کہ پاکستان بھارت سمیت تمام پڑوسی ممالک سے دوستانہ تعلقات کا خواہاں ہے۔
بھارتی وزارت خارجہ سے جاری بیان کے مطابق بھارتی سیکرٹری خارجہ ایس جے شنکر نے پٹھان کوٹ حملے کی تحقیقات اور ممبئی حملوں کے سلسلے میں جلد اور واضح پیش رفت کا مطالبہ کیا۔
انھوں نے جیش محمد کے رہنما مسعود اظہر پر اقوام متحدہ کی پابندی کا مسئلہ بھی اٹھایا۔
بھارتی وزارت خارجہ کے بیان کے مطابق سیکرٹری خارجہ جے شنکر نے واضح کیا کہ دہشت گردی کے واقعات کی وجہ سے دو طرفہ تعلقات پر پڑنے والے اثرات سے پاکستان انکار نہیں کر سکتا۔
اُنھوں نے بھارتی بحریہ کے سابق ملازم کلبھوشن جادیو تک فوری سفارتی رسائی پر زور دیا۔
افغانستان سے متعلق بین الاقوامی کانفرنس "ہارٹ آف ایشیا، استنبول پراسس" کا وزارتی اجلاس گزشتہ سال دسمبر میں پاکستان میں ہوا تھا جس میں بھارت کی وزیر خارجہ سشما سوراج نے بھی شرکت کی تھی۔
سشما سوراج اور پاکستان کے وزیراعظم نواز شریف کے مشیر برائے اُمور خارجہ سرتاج عزیز کے درمیان دسمبر 2015ء میں ہونے والی ملاقات میں دوطرفہ امن مذاکرات کی بحالی پر اتفاق کرتے ہوئے کہا تھا کہ دونوں ملکوں کے خارجہ سیکرٹری سطح کے مذاکرات اسلام آباد میں جنوری میں ہوں گے۔
لیکن رواں سال جنوری کے اوائل میں بھارت کے سرحدی علاقے پٹھان کوٹ میں بھارتی فضائیہ کے اڈے پر حملے کے بعد بات چیت کا یہ عمل شروع نا ہو سکا۔
بھارت کا الزام ہے کہ پٹھان کوٹ میں حملہ پاکستان میں موجود شدت پسند تنظیم جیش محمد کے جنگجوؤں نے کیا۔ بھارت سے اس ضمن میں فراہم کی جانے والی معلومات کی بنیاد پر پاکستان نے جیش محمد سے وابستہ افراد کے خلاف کارروائی بھی کی۔
جب کہ اس معاملے کی تحقیقات کرنے والی پاکستان کی تفتیشی ٹیم نے بھارت کا دورہ بھی کیا۔
دونوں ملکوں کے درمیان تعلقات میں تلخی میں ایک بار پھر اضافہ اُس وقت ہوا جب فروری میں پاکستان نے صوبہ بلوچستان سے بھارتی انٹیلی جنس ایجنسی ’را‘ کے ایک مبینہ افسر کلبھوشن یادیو کو گرفتار کرنے کا دعویٰ کیا۔
اپنے شہری کی گرفتاری کے بعد بھارت کی طرف سے ایک بیان میں کہا گیا تھا کہ کلبھوشن نے بھارتی بحریہ سے قبل از وقت ریٹائرمنٹ لے لی تھی اور اُس کے بعد سے اُن کا حکومت سے کوئی تعلق نہیں۔