امریکی محکمہ خارجہ کے ترجمان نے کہا کہ اُن کا ملک پاکستان اور بھارت کے درمیان مذاکرات اور انسداد دہشت گردی کے شعبے میں تعاون کی حوصلہ افرائی کرے گا۔
بھارت کے زیر انتظام کشمیر میں حالیہ کشیدگی پر پاک بھارت تعلقات میں تناؤ سے متعلق پوچھے گئے ایک سوال کے جواب میں امریکی محکمہ خارجہ کے ترجمان نے کہا کہ ’’ہم پہلے بھی کئی مرتبہ یہ کہہ چکے ہیں کہ (مذاکرات) دونوں ملکوں اور خطے کے مفاد میں ہیں۔۔۔۔ اور یہ امریکہ کے لیے بھی فائدہ مند ہیں۔‘‘
روزانہ کی نیوز بریفنگ میں ترجمان مارک ٹونر نے کہا کہ یہ اہم ہے کہ پاکستان ناصرف اپنے ملک بلکہ خطے میں بھی دہشت گردی کی کارروائیوں کو روکنے کے لیے ہر ممکن اقدام کرے۔
اُنھوں نے کہا کہ اس کے لیے اہم ہے کہ دونوں ملکوں کے درمیان وسیع تعاون اور مذاکرات ہوں۔ ترجمان کا کہنا تھا کہ اُن کا ملک اس ضمن میں کی جانے والی کسی بھی کوششش کی حوصلہ افزائی کرے گا۔
اُدھر پاکستان کے مشیر خارجہ سرتاج عزیز نے ایک بیان میں کہا ہے کہ پاکستان کشمیر کے مسئلے کو مذاکرات کے ذریعے حل کرنے کو تیار ہے تاہم اُن کے بقول بھارت اس سلسلے میں اپنی ذمہ داریوں سے پیچھے ہٹ رہا ہے۔
واضح رہے کہ رواں ہفتے پاکستان کے سیکرٹری خارجہ اعزاز احمد چوہدری نے اپنے بھارتی ہم منصب ایس جے شنکر کو کشمیر کے معاملے پر مذاکرات کے لیے اسلام آباد آنے کی باضابطہ دعوت دی تھی اور اُنھوں نے اس ضمن میں دعوت نامے پر مشتمل ایک خط اسلام آباد میں تعینات بھارت کے ہائی کمشنر کے حوالے کیا تھا۔
وزارت خارجہ کے بیان کے مطابق خط میں اس بات کو اجاگر کیا گیا ہے کہ دونوں ملکوں کی یہ بین الاقوامی ذمہ داری ہے کہ کشمیر کے تنازع کو اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی قراردادوں کے مطابق حل کیا جائے۔
پاکستان کے سیکرٹری خارجہ کے خط سے قبل بھارتی وزارت خارجہ کے ترجمان وکاس سواروپ نے اپنے ایک بیان میں کہا تھا کہ اُن کا ملک پاکستان سے تمام حل طلب مسائل پر بات چیت کرنا چاہتا ہے، لیکن اُن کی طرف بات چیت کے عمل کی شروعات کے لیے کچھ شرائط بھی رکھی گئی تھیں۔
جن میں کہا گیا تھا کہ پاکستان نا صرف سرحد پار سے مبینہ اشتعال انگیزی بند کرے بلکہ ’’حافظ سعید اور سید صلاح الدین‘‘ کی حمایت بھی بند کرے۔ وکاس سواروپ نے اپنے بیان یہ بھی کہا تھا کہ بات چیت سے قبل پاکستان پٹھان کوٹ اور ممبئی بم حملوں کی تحقیقات بھی آگے بڑھائے۔
مذاکرات کے لیے بھارتی کی طرف سے پیشگی شرائط پر تو پاکستان کی طرف سے کچھ نہیں کہا گیا البتہ پاکستان کا کہنا ہے کہ وہ بھارتی کشمیر میں کسی بھی طرح کی مداخلت نہیں کر رہا ہے لیکن وہ اپنے سابقہ موقف کے تحت کشمیریوں کی جدوجہد کی اخلاقی و سفارتی حمایت جاری رکھے گا۔
رواں ہفتے ہی بھارت کے وزیراعظم نریندر مودی نے اپنے ملک کے یوم آزادی کے موقع پر پیر ’15 اگست‘ کو اپنی تقریر میں پاکستان کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا تھا کہ ’’اُن کی طرف دیکھ لیجیئے جہاں دہشت گردوں کی تعریف کی جا رہی ہے۔ جب معصوم دہشت گردوں کے ہاتھوں لوگ مارے جاتے ہیں تو وہ اس کا جشن مناتے ہیں۔ یہ دہشت گردوں کے نظریے سے متاثر کیسی زندگی ہے؟ یہ دہشت گردوں سے متاثر کیسا حکومتی نظام ہے؟، دنیا اس کے بارے میں جان لے گی، اتنا میرے لیے کافی ہے۔‘‘
بھارت کے وزیراعظم کی تقریر پر ردعمل میں پاکستان کے مشیر خارجہ سرتاج عزیز نے کہا کہ وزیراعظم مودی کا بیان گزشتہ کئی ہفتوں سے بھارت کے زیرانتظام کشمیر میں جاری صورت حال سے توجہ ہٹانے کی کوشش ہے۔
گزشتہ ماہ بھارتی کشمیر میں ایک علیحدگی پسند کمانڈر برہان وانی کی سکیورٹی فورسز سے جھڑپ میں ہلاکت کے بعد پاکستان کے وزیراعظم نے نواز شریف نے انھیں ’’شہید‘‘ قرار دیا تھا جس پر بھارت نے شدید ردعمل کا اظہار کرتے ہوئے کہا تھا کہ دہشت گردوں کو ہیرو بنا کر پیش کیے جانے کا سلسلہ بند ہونا چاہیئے۔
بھارت کے زیر انتظام کشمیر میں حالیہ کشیدگی کے بعد دونوں ملکوں کے تعلقات میں حالیہ ہفتوں میں تناؤ میں اضافہ ہوا ہے اور ایک دوسرے کے بارے میں سخت بیانات بھی سامنے آئے ہیں۔