اسلام آباد —
کشمیر کو دو حصوں میں منقسم کرنے والی حد بندی لائن پر کشیدگی کے ماحول میں بھارت اور پاکستان کے سفارت کاری سے متعلق اعلیٰ عہدیداروں نے منگل کو دوطرفہ تعلقات کا بحیثیت مجموعی جائزہ لیا۔
اسلام آباد میں بھارت کے ہائی کمشنر ٹی سی اے راگھون نے وزیرِ اعظم کے مشیر برائے اُمور خارجہ و قومی سلامتی سرتاج عزیز سے وزارتِ خارجہ میں ملاقات کی۔
وزارتِ خارجہ سے جاری ہونے والے بیان میں کہا گیا کہ سرتاج عزیز نے دونوں ہمسایہ ممالک کے درمیان مذاکرات کا عمل دوبارہ شروع کرنے کی اہمیت پر زور دیا۔
’’لائن آف کنٹرول پر پائی جانے والی کشیدگی سے یہ عمل بظاہر پٹڑی سے اتر گیا ہے، جو قابل افسوس ہے۔‘‘
سرتاج عزیز نے کہا کہ دونوں ممالک کو تمام مسائل کے حل کے لیے مثبت انداز میں آگے بڑھنے کی ضرورت ہے۔
بیان میں کہا گیا کہ بھارتی ہائی کمشنر نے بھی اس موقف کا اظہار کیا کہ لائن آف کنٹرول پر کشیدگی مذاکراتی عمل کے لیے ایک ’’دھچکہ‘‘ ہے۔
حالیہ ہفتوں کے دوران پاک بھارت عہدیداروں کے درمیان یہ پہلا رابطہ ہے جس کا لائن آف کنٹرول پر جاری جھڑپوں سے بظاہر کوئی براہ راست تعلق نہیں تھا۔
اطلاعات کے مطابق ملاقات میں دونوں ممالک کے وزرائے اعظم کے مابین رواں ماہ نیو یارک میں ممکنہ ملاقات پر بھی بات چیت کی گئی۔
پاکستانی حکام کے بقول وزیر اعظم نواز شریف اور اُن کے بھارتی ہم منصب منموہن سنگھ کے مابین اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے اجلاس کے موقع پر ملاقات موجودہ تناؤ کو کم کرنے اور پاک بھارت تعلقات کو مضبوط کرنے میں مددگار ثابت ہو سکتی ہے۔
نواز شریف قوم سے اپنے حالیہ خطاب میں خود بھی بھارتی وزیرِ اعظم سے ملاقات کی خواہش کا اظہار کر چکے ہیں۔ یہ امر قابل ذکر ہے کہ 11 مئی کے انتخابات کے بعد نواز شریف اور منموہن سنگھ دو مرتبہ ٹیلی فون پر رابطہ کر چکے ہیں۔
دونوں ہمسایہ ممالک کے درمیان حالیہ تناؤ کی بنیاد اگست کے اوائل میں نئی دہلی کا وہ دعویٰ تھا جس کے مطابق پاکستانی فوج نے لائن آف کنٹرول کی خلاف ورزی کرتے ہوئے پانچ بھارتی فوجیوں کو ہلاک کر دیا۔
تاہم پاکستان نے اس الزام کو مسترد کرتے ہوئے لائن آف کنٹرول پر فائر بندی کے معاہدے کی متنازع خلاف ورزیوں کی دوطرفہ یا اقوام متحدہ کے ذریعے تحقیقات کی پیش کش بھی کی تھی جس کو پاکستانی حکام کے بقول نئی دہلی نے مسترد کر دیا۔
پاکستان میں عسکری ذرائع کا کہنا ہے کہ بھارتی فوج کی جانب سے کشمیر کے سرحدی علاقوں میں فائرنگ اور گولہ باری کا سلسلہ تواتر سے جاری ہے، اور اب تک تین پاکستانی فوجی اور کم از کم دو شہری ہلاک ہو چکے ہیں۔
سرتاج عزیز نے پارلیمان کے ایوانِ زیریں یعنی قومی اسمبلی کو گزشتہ ہفتے دی گئی بریفنگ میں کہا تھا کہ یہ معاملہ صرف دوطرفہ مذاکرات سے حل ہوسکتا ہے۔
اُن کا کہنا تھا کہ گزشتہ 14 سال میں دوطرفہ مذاکرات کا جائزہ لیا جائے تو ان میں اس حوالے سے کوئی خاطر خواہ پیش رفت نہیں ہوئی۔
’’کیا اب بین الاقوامی برادری کی ذمہ داری نہیں ہے کہ وہ تصفیہ کریں کہ ایک مسئلہ جس میں کوئی بھی واقعہ چنگاری کی طرح دو ایٹمی ہتھیاروں سے لیس ممالک کے تعلقات میں تشدد کے شعلے کو بھڑکا دیتا ہے کیا وہ واقعی اب مسئلہ نہیں رہا۔‘‘
ادھر پاکستان کی بری فوج کے سربراہ جنرل اشفاق پرویز کیانی نے منگل کو لائن آف کنٹرول پر اگلے مورچوں پر تعینات فوجیوں سے ملاقات کی۔
فوج کے شعبہ تعلقات عامہ آئی ایس پی آر کی طرف سے جاری کردہ بیان کے مطابق جنرل کیانی نے ’’فوجیوں کے حوصلے اور تیاری‘‘ پر مکمل اطمینان کا اظہار کیا۔
لائن آف کنٹرول کے دورے کے دوران مقامی کمانڈر نے جنرل کیانی کو موجودہ صورتِ حال پر بریفنگ بھی دی۔
دریں اثنا بھارت کے اقتصادی مرکزی ممبئی میں نومبر 2008ء میں ہونے والے دہشت گرد حملے میں پاکستان میں زیر حراست ملزمان کے خلاف درج مقدمے کی سماعت منگل کو راولپنڈی کی انسداد دہشت گردی کے ایک عدالت میں ہوئی۔
اس مقدمے میں ملوث ملزمان کے ایک وکیل ریاض اکرم چیمہ نے وائس آف امریکہ کو سماعت کی تفصیلات بتاتے ہوئے کہا کہ ممبئی حملے کے گواہوں سے جرح کے لیے پاکستان کے عدالتی کمیشن کے دورہ بھارت سے متعلق دستاویز کی نقول عدالت میں جمع نہیں کرائی گئیں اس لیے اب مقدمے کی سماعت بدھ کو ہو گئی۔
وکیل صفائی کا کہنا تھا کہ پاکستان کے عدالتی کمیشن کی بھارت روانگی رواں ہفتے ہی متوقع ہے تاہم اُن کے بقول کشمیر میں لائن آف کنٹرول پر جھڑپوں کے بعد دوطرفہ تعلقات میں کشیدگی کے تناظر میں کمیشن کے اراکین نے حکومتِ پاکستان سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ بھارتی حکام سے رابطہ کرکے اُن کے لیے مکمل حفاظتی اقدامات کو یقینی بنائیں۔
اسلام آباد میں بھارت کے ہائی کمشنر ٹی سی اے راگھون نے وزیرِ اعظم کے مشیر برائے اُمور خارجہ و قومی سلامتی سرتاج عزیز سے وزارتِ خارجہ میں ملاقات کی۔
وزارتِ خارجہ سے جاری ہونے والے بیان میں کہا گیا کہ سرتاج عزیز نے دونوں ہمسایہ ممالک کے درمیان مذاکرات کا عمل دوبارہ شروع کرنے کی اہمیت پر زور دیا۔
’’لائن آف کنٹرول پر پائی جانے والی کشیدگی سے یہ عمل بظاہر پٹڑی سے اتر گیا ہے، جو قابل افسوس ہے۔‘‘
سرتاج عزیز نے کہا کہ دونوں ممالک کو تمام مسائل کے حل کے لیے مثبت انداز میں آگے بڑھنے کی ضرورت ہے۔
بیان میں کہا گیا کہ بھارتی ہائی کمشنر نے بھی اس موقف کا اظہار کیا کہ لائن آف کنٹرول پر کشیدگی مذاکراتی عمل کے لیے ایک ’’دھچکہ‘‘ ہے۔
حالیہ ہفتوں کے دوران پاک بھارت عہدیداروں کے درمیان یہ پہلا رابطہ ہے جس کا لائن آف کنٹرول پر جاری جھڑپوں سے بظاہر کوئی براہ راست تعلق نہیں تھا۔
اطلاعات کے مطابق ملاقات میں دونوں ممالک کے وزرائے اعظم کے مابین رواں ماہ نیو یارک میں ممکنہ ملاقات پر بھی بات چیت کی گئی۔
پاکستانی حکام کے بقول وزیر اعظم نواز شریف اور اُن کے بھارتی ہم منصب منموہن سنگھ کے مابین اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی کے اجلاس کے موقع پر ملاقات موجودہ تناؤ کو کم کرنے اور پاک بھارت تعلقات کو مضبوط کرنے میں مددگار ثابت ہو سکتی ہے۔
نواز شریف قوم سے اپنے حالیہ خطاب میں خود بھی بھارتی وزیرِ اعظم سے ملاقات کی خواہش کا اظہار کر چکے ہیں۔ یہ امر قابل ذکر ہے کہ 11 مئی کے انتخابات کے بعد نواز شریف اور منموہن سنگھ دو مرتبہ ٹیلی فون پر رابطہ کر چکے ہیں۔
دونوں ہمسایہ ممالک کے درمیان حالیہ تناؤ کی بنیاد اگست کے اوائل میں نئی دہلی کا وہ دعویٰ تھا جس کے مطابق پاکستانی فوج نے لائن آف کنٹرول کی خلاف ورزی کرتے ہوئے پانچ بھارتی فوجیوں کو ہلاک کر دیا۔
تاہم پاکستان نے اس الزام کو مسترد کرتے ہوئے لائن آف کنٹرول پر فائر بندی کے معاہدے کی متنازع خلاف ورزیوں کی دوطرفہ یا اقوام متحدہ کے ذریعے تحقیقات کی پیش کش بھی کی تھی جس کو پاکستانی حکام کے بقول نئی دہلی نے مسترد کر دیا۔
پاکستان میں عسکری ذرائع کا کہنا ہے کہ بھارتی فوج کی جانب سے کشمیر کے سرحدی علاقوں میں فائرنگ اور گولہ باری کا سلسلہ تواتر سے جاری ہے، اور اب تک تین پاکستانی فوجی اور کم از کم دو شہری ہلاک ہو چکے ہیں۔
سرتاج عزیز نے پارلیمان کے ایوانِ زیریں یعنی قومی اسمبلی کو گزشتہ ہفتے دی گئی بریفنگ میں کہا تھا کہ یہ معاملہ صرف دوطرفہ مذاکرات سے حل ہوسکتا ہے۔
اُن کا کہنا تھا کہ گزشتہ 14 سال میں دوطرفہ مذاکرات کا جائزہ لیا جائے تو ان میں اس حوالے سے کوئی خاطر خواہ پیش رفت نہیں ہوئی۔
’’کیا اب بین الاقوامی برادری کی ذمہ داری نہیں ہے کہ وہ تصفیہ کریں کہ ایک مسئلہ جس میں کوئی بھی واقعہ چنگاری کی طرح دو ایٹمی ہتھیاروں سے لیس ممالک کے تعلقات میں تشدد کے شعلے کو بھڑکا دیتا ہے کیا وہ واقعی اب مسئلہ نہیں رہا۔‘‘
ادھر پاکستان کی بری فوج کے سربراہ جنرل اشفاق پرویز کیانی نے منگل کو لائن آف کنٹرول پر اگلے مورچوں پر تعینات فوجیوں سے ملاقات کی۔
فوج کے شعبہ تعلقات عامہ آئی ایس پی آر کی طرف سے جاری کردہ بیان کے مطابق جنرل کیانی نے ’’فوجیوں کے حوصلے اور تیاری‘‘ پر مکمل اطمینان کا اظہار کیا۔
لائن آف کنٹرول کے دورے کے دوران مقامی کمانڈر نے جنرل کیانی کو موجودہ صورتِ حال پر بریفنگ بھی دی۔
دریں اثنا بھارت کے اقتصادی مرکزی ممبئی میں نومبر 2008ء میں ہونے والے دہشت گرد حملے میں پاکستان میں زیر حراست ملزمان کے خلاف درج مقدمے کی سماعت منگل کو راولپنڈی کی انسداد دہشت گردی کے ایک عدالت میں ہوئی۔
اس مقدمے میں ملوث ملزمان کے ایک وکیل ریاض اکرم چیمہ نے وائس آف امریکہ کو سماعت کی تفصیلات بتاتے ہوئے کہا کہ ممبئی حملے کے گواہوں سے جرح کے لیے پاکستان کے عدالتی کمیشن کے دورہ بھارت سے متعلق دستاویز کی نقول عدالت میں جمع نہیں کرائی گئیں اس لیے اب مقدمے کی سماعت بدھ کو ہو گئی۔
وکیل صفائی کا کہنا تھا کہ پاکستان کے عدالتی کمیشن کی بھارت روانگی رواں ہفتے ہی متوقع ہے تاہم اُن کے بقول کشمیر میں لائن آف کنٹرول پر جھڑپوں کے بعد دوطرفہ تعلقات میں کشیدگی کے تناظر میں کمیشن کے اراکین نے حکومتِ پاکستان سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ بھارتی حکام سے رابطہ کرکے اُن کے لیے مکمل حفاظتی اقدامات کو یقینی بنائیں۔