پاکستان نے رواں ہفتے بھارت کے اقتصادی مرکز ممبئی میں ہونے والے دہشت گرد حملوں کی شدید مذمت کرتے ہوئے کہا کہ دونوں ہی ملک دہشت گردی سے متاثر ہو رہے ہیں اور اس کے سدباب کے لیے مشترکہ کوششوں کی ضرورت ہے۔
دفتر خارجہ کی ترجمان تہمینہ جنجوعہ نے ہفتہ کو نیوز کانفرنس سے خطاب میں کہا کہ پاکستان اور بھارت کے عہدیداروں کے درمیان ہونے والی حالیہ ملاقاتوں میں اس بات پر اتفاق کیا گیا تھا کہ دہشت گردی سے متعلق تمام معاملا ت پر دونوں ممالک کے درمیان جاری امن مذاکرات کے اجلاسوں میں بات چیت کی جائے گی۔ ” دونوں ملکوں کو درپیش دہشت گردی کے خطرات سے نمٹنے کے لیے قریبی تعاون کی اشد ضرورت ہے ۔“
وفاقی وزیر داخلہ رحمن ملک نے بھی ہفتہ کو اپنے بھارت ہم منصب پی چدمبرم سے ٹیلی فون پر رابطہ کیا ۔ ذرائع ابلاغ کے نمائندوں سے گفتگو میں رحمن ملک نے کہا کہ موجودہ حالات اس بات کا تقاضہ کرتے ہیں کہ دہشت گردی کے خاتمے لیے اسلام آباد اور نئی دہلی مشترکہ حکمت عملی اپنائیں ۔ پاکستانی وزیر داخلہ کے بقول پاکستان اس خطرے سے نمٹنے کے لیے بھارت کے ساتھ ہر ممکن تعاون کے لیے تیار ہے۔
دریں اثناء دفتر خارجہ کی ترجمان نے کہا کہ کشمیر میں لائن آف کنٹرول کے آر پار اعتماد سازی کے اقدامات کا جائزہ لینے کے لیے پاک بھارت ورکنگ گروپ کا اجلاس پیر سے نئی دہلی میں ہوگا جس میں سرحد کے دونوں اطراف سفر اور تجارت کے لیے موجودہ اقدمات مزید بہتر بنانے کے لیے سفارشات تیار کی جائیں گی۔
ورکنگ گروپ کے اجلاس کا فیصلہ جون میں پاک بھارت خارجہ سیکرٹری سطح کے مذاکرات میں کیا گیا تھا تاکہ کشمیر میں کنٹرول لائن کے آرپار اعتماد سازی کے عمل کو آگے بڑھایا جا سکے۔
تہمینہ جنجوعہ نے بتایا کہ پاکستان اور بھارت کے مابین وزرائے خارجہ سطح کے مذاکرات رواں ماہ کے اواخر میں نئی دہلی میں ہوں گے اور اس سے قبل دونوں ممالک کے خارجہ سیکریٹری بھی ملیں گے اور ان ملاقاتوں کے لیے تاریخوں کو حتمی شکل دینے کا کام جاری ہے۔
رواں سال فروری میں سارک ممالک کے ایک اجلاس کے موقع پر پاک بھارت خارجہ سیکریٹری سطح کی ملاقات کے بعد دونوں ممالک نے دوطرفہ امن مذاکرات کی بحالی کا اعلان کیا تھا جس کے بعد پانی کے تنازعات، سرکریک اور سیاچن کے مسائل کے علاوہ تجارت کے فروغ کے لیے دونوں ممالک کے متعلقہ حکام کے درمیان بات چیت کے دور ہو چکے ہیں۔