پاکستان نے کہا ہے کہ وہ دہشت گردی کے خلاف اپنا کردار ادا کرتا چلا آرہا ہے اور اسے توقع ہے کہ امریکہ سمیت دوست ممالک اس ضمن میں درکار تعاون جاری رکھیں گے۔
جمعرات کو دفتر خارجہ کی ترجمان تسنیم اسلم کا یہ بیان ایک ایسے وقت سامنے آیا ہے جب ذرائع ابلاغ میں ایک بار پھر یہ خبریں گردش کر رہی ہیں کہ امریکی کانگریس میں پاکستان کے لیے امداد میں سے کچھ حصے کو ڈاکٹر شکیل آفریدی کی رہائی سے مشروط کرنے پر بات ہو رہی ہے۔
ترجمان نے ان خبروں پر براہ راست تو کوئی تبصرہ نہیں کیا تاہم ان کا کہنا تھا کہ اوباما انتظامیہ اپنی بجٹ تجاویز کانگریس میں پیش کر چکی ہے جس پر بحث کا سلسلہ جاری ہے اور انھیں توقع ہے کہ امریکہ پاکستان کے ساتھ اپنا تعاون جاری رکھے گا۔
"پاکستان دہشت گردی کے خلاف ایک کلیدی کردار ادا کرتا آرہا ہے جس کا عالمی برادری کی طرف سے اعتراف بھی کیا جاچکا ہے۔ ہمارا ماننا ہے کہ پاکستان کے دوست ممالک بشمول امریکہ تمام درکار تعاون پیش کرتے رہیں گے تاکہ پاکستان اس ضمن میں اپنا مرکزی کردار زیادہ موثر انداز میں جاری رکھ سکے۔"
ان کا کہنا تھا کہ امریکی محکمہ خارجہ نے مالی سال کے بجٹ میں پاکستان کے لیے تقریباً 80 کروڑ ڈالرز سے زائد کی رقم تجویز کر رکھی ہے جو کہ پاکستان میں اقتصادی، سلامتی اور دیگر شعبوں میں تعاون پر صرف ہونی ہے۔
ڈاکٹر شکیل آفریدی گزشتہ چار سال سے پاکستان میں قید ہے جسے مئی 2011ء میں ایسی اطلاعات منظر عام پر آنے کے بعد گرفتار کیا گیا تھا کہ اس نے القاعدہ کے روپوش رہنما اسامہ بن لادن کی تلاش میں امریکی خفیہ ادارے سی آئی اے کی مدد کی تھی۔
امریکی اسپیشل فورسز نے دو مئی 2011ء کو پاکستانی شہر ایبٹ آباد میں ایک خفیہ کارروائی کرتے ہوئے اسامہ بن لادن کو ہلاک کر دیا تھا۔
امریکہ میں ڈاکٹر شکیل آفریدی کو دنیا کے مطلوب ترین دہشت گرد کی نشاندہی میں مدد فراہم کرنے پر خاصا سراہا جاتا ہے اور اس کی رہائی کے لیے پہلے بھی پاکستان پر دباؤ ڈالنے کی باتیں کی جاتی رہی ہیں۔
تاہم پاکستانی عہدیداروں کا کہنا ہے کہ ڈاکٹر آفریدی کا معاملہ عدالت میں ہے اور اس پر قانون کے مطابق ہی عمل کیا جا رہا ہے۔
خیبر ایجنسی سے تعلق رکھنے والے 51 سالہ ڈاکٹر شکیل آفریدی کو قبائلی علاقوں میں رائج قانون "ایف سی آر" کے تحت کالعدم شدت پسندوں کے ساتھ روابط کے الزام میں 23 سال قید کی سزا سنائی گئی تھی۔
یہ امر قابل ذکر ہے کہ حالیہ مہینوں میں پاکستان اور امریکہ کے درمیان انسداد دہشت گردی سمیت دیگر شعبوں میں جاری تعاون میں بہتری آئی ہے۔ دونوں ملکوں کے اعلیٰ عسکری عہدیدار ایک دوسرے کے ملکوں کا دورہ کر چکے ہیں جب کہ اسی ہفتے پاکستانی افواج کے انٹیلی جنس ادارے آئی ایس آئی کے سربراہ بھی امریکہ پہنچے ہیں جہاں وہ سلامتی سے متعلق امور پر اپنے ہم منصبوں سے تبادلہ خیال کر رہے ہیں۔