اعلیٰ تعلیم کے فروغ اور اس کے ملک کی اقتصادی و سماجی ترقی پر اثرات کے موضوع پر بدھ کو ایک سیمینار سے خطاب میں ہائیر ایجوکیشن کمیشن کے سربراہ ڈاکٹر جاوید لغاری نے اس شعبے کی ترقی کے لیے اب تک کیے جانے والے اقدامات کی تفصیلات اور اُن مسائل کا ذکر کیا جو اُن کے ادارے کو درپیش ہیں ۔
اُنھوں نے بتایا کہ سرکاری خرچ پر ساڑھے سات ہزارپاکستانی اندرون ملک اور غیر ملکی یونیورسٹیوں میں پی ایچ ڈی کی تعلیم حاصل کر رہے ہیں۔
کمیشن کے چیئرمین نے بتایا کہ آئندہ تین سے چار سالوں میں یہ تمام اعلیٰ تعلیم یافیہ افراد پاکستانی جامعات کا حصہ بن جائیں جس سے ناصر ف معیار تعلیم بہتر ہوگا بلکہ مختلف سائنسی اور سماجی شعبوں میں تحقیق کا عمل بھی تیز ہوگا۔
اُنھوں نے بتایا کہ ہائیر ایجوکیشن کمیشن کی پالیسیوں کی بدولت اگلے چند سالوں میں پاکستان کی جامعات میں پی ایچ ڈی ڈگریاں رکھنے والے اساتذہ کی تعداد 20 فیصد سے بڑھ کر 40 فیصد ہوجائے گی لیکن ان افراد کے لیے مناسب روزگار کے مواقع اور تحقیق کے لیے وسائل کی فراہمی اس وقت کمیشن کے لیے ایک بڑا چیلنج ہے۔
جاوید لغاری نے کہا کہ اگر ان افراد کی قابلیت کو بہتر طور پر استعمال کیا جائے تو پاکستان کی سماجی و اقتصادی ترقی میں یہ افراد نمایاں کردار ادا کر سکتے ہیں ۔ تاہم اُن کا کہنا تھا کہ 2008ء کے بعد سے شعبہ تعلیم بالخصوص اعلیٰ تعلیم کے فروغ کے لیے حکومت کی طرف سے فراہم کیے جانے والے مالی وسائل میں بتدریج کمی آئی ہے جس سے ہائیر ایجوکیشن کمیشن کی مشکلات میں اضافہ ہوگیا ہے ۔
اُنھوں نے کہا کہ ماضی کے برعکس پاکستان کی جامعات میں پی ایچ ڈی مکمل کرنے والوں کو اچھی تنخواہیں دی جارہی ہیں لیکن ان اعلیٰ تعلیم یافتہ افراد کو خلیج کے ممالک میں جامعات کی طرف سے دس گنا زیادہ تنخواہوں اور مراعات کی پیش کش ہے اس لیے ضرورت اس امر کی ہے کہ اندرون ملک ایسے حالات پید ا کیے جائیں جس سے ان محققین کی پاکستان میں رہ کر کام کرنے کی حوصلہ افزائی ہو۔
جاوید لغاری نے کہا کہ پرائمری اور ثانوی تعلیم کے میعار کو بھی بہتر کرنے کے لیے بہت کچھ کرنا باقی ہے کیوں کہ اُن کے بقول اس سطح پر درس وتدریس میں مصروف اساتذہ اور متنظمین میں مناسب تربیت کا فقدان جہاں غیر معیاری تعلیم کو فروغ دے رہا ہے وہیں بدعنوانی اور بد انتظامی بھی اس شعبے کو متاثر کر رہی ہے ۔
اُنھوں نے کہا کہ وفاق کی طرح صوبائی سطح پر بھی تعلیم کو وزارتوں کے اثر سے نکال کر ہائیر ایجوکیشن کمیشن کی طرز کے اداروں کی نگرانی میں د ینے سے معیار تعلیم کو بہتر کرنے میں مدد ملے گی ۔
ہائیر ایجوکیشن کمیشن کے سربراہ نے کہا کہ اُن کے ادارے کے قیام کے بعد پاکستان میں سرکاری اور نجی یونیورسٹیاں کی تعداد میں اضافہ ہوا ہے جن میں سے متعدد کا شمار دنیا کی نمایاں تین سو یونیورسٹیوں میں ہوتا ہے۔
جاوید لغاری نے کہا کہ اُن کا ادارہ جعلی پی ایچ ڈی ڈگریاں رکھنے والوں کے خلاف بھی اقدامات کر رہا ہے لیکن ضرورت اس امر کی ہے کہ جن لوگوں کے پاس ایسے افراد کی تعلیمی اسناد کے بارے میں ثبوت ہوں وہ بغیر ہچکچاہٹ ہائیر ایجوکیشن کمیشن سے رابطہ کریں ۔