رسائی کے لنکس

سال 2017 میں خودکش بم دھماکے نسبتاً زیادہ ہوئے


فروری میں سیہون میں صوفی بزرگ لعل شہباز قلندر کے مزار کے احاطے میں مہلک خودکش دھماکا ہوا تھا
فروری میں سیہون میں صوفی بزرگ لعل شہباز قلندر کے مزار کے احاطے میں مہلک خودکش دھماکا ہوا تھا

گزشتہ سال دہشت گرد واقعات اور سیکورٹی کی کارروائیوں میں 1387 افراد ہلاک ہوئے جن میں 585 عام شہری، 555 مشتبہ دہشت گرد اور 247 سیکورٹی اہلکار شامل ہیں۔

پاکستان میں اتوار کو ختم ہونے والے سال 2017 کے دوران ماضی کی نسبت دہشت گرد حملوں میں تو کمی رہی لیکن خودکش بم دھماکوں میں اضافہ دیکھا گیا۔

یہ بات ایک تھنک ٹینک 'پاکستان انسٹیٹیوٹ فار کانفلکٹ اینڈ سکیورٹی اسٹڈیز' نے اپنی رپورٹ میں بتائی۔

رپورٹ کے مطابق سال 2017 میں ملک کے مختلف علاقوں میں 23 خودکش حملے ہوئے جب کہ 2016ء میں ان کی تعداد 17 اور 2015ء میں 18 تھی۔

گزشتہ سال دہشت گرد واقعات اور سکیورٹی کی کارروائیوں کے دوران 1387 افراد ہلاک ہوئے جن میں 585 عام شہری، 555 مشتبہ دہشت گرد اور 247 سکیورٹی اہلکار شامل ہیں۔

رپورٹ کے مطابق ملک بھر میں ہونے والے دہشت گرد حملوں میں 43 فیصد جنوب مغربی صوبہ بلوچستان میں ہوئے جس کے بعد سب سے زیادہ دہشت گرد واقعات قبائلی علاقوں میں دیکھنے میں آئے۔

جنوبی صوبہ سندھ میں ماضی کی نسبت دہشت گرد حملوں میں 40 فیصد کمی لیکن ایسے واقعات میں ہلاکتوں کی شرح میں 84 فیصد اضافے کا بتایا گیا۔

شمال مغربی صوبہ خیبر پختونخواہ میں رپورٹ کے مطابق صورتحال ماضی کی نسبت خاصی حوصلہ افزا رہی جہاں دہشت گردی کے واقعات میں 40 فیصد اور ان میں ہونے والی اموات میں 47 فیصد کمی ریکارڈ کی گئی۔

لیکن آبادی کے لحاظ سے سب سے بڑے صوبے پنجاب میں گزشتہ برس دہشت گرد حملوں میں سات فیصد اضافہ دیکھا گیا۔

جون 2014ء میں پاکستانی فوج نے قبائلی علاقے شمالی وزیرستان میں دہشت گردوں کے خلاف ضرب عضب کے عنوان سے بھرپور کارروائی کا آغاز کیا اور بعد ازاں دیگر قبائلی علاقوں میں بھی آپریشن کیے گئے جن میں حکام کے مطابق ہزاروں دہشت گردوں کو ہلاک کرنے کے علاوہ ان کے بنیادی ڈھانچے کو تباہ کر دیا گیا۔

گزشتہ سال کے اوائل میں آپریشن ردالفساد شروع کیا گیا جس کے تحت ملک بھر میں دہشت گردوں اور ان کے حامیوں کے خلاف کارروائیاں شروع کی گئیں۔ ان ہی سکیورٹی آپریشنز کی وجہ سے ماضی کی نسبت پاکستان میں امن و امان کی صورتحال میں بہتری دیکھی گئی۔

سلامتی کے امور کے تجزیہ کار اور سابق وفاقی سیکرٹری داخلہ تسنیم نورانی کہتے ہیں کہ دہشت گردی کے یہ واقعات ممکنہ طور پر ان دہشت گردوں کی طرف سے سکیورٹی آپریشنز کا ردعمل ہے جن کے ٹھکانوں کو تباہ کیا جا چکا ہے۔

وائس آف امریکہ سے گفتگو میں ان کا کہنا تھا کہ "ضرب عضب بہت موثر رہا اور ان (دہشت گردوں) کے ٹھکانے تباہ ہوئے تو وہاں یہ پھر فرار ہو کر شہروں میں آئے، رد الفساد آپریشن چونکہ شہروں میں بھی شروع کیا گیا تو ایسے واقعات میں اضافہ بھی ہوا۔"

ان کا کہنا تھا کہ اس سال بھی دہشت گردی کے چیلنجز درپیش رہیں گے جس سے نمٹنے کے لیے سنجیدہ اور مسلسل کوششیں جاری رکھنے کی ضرورت ہے۔

پاکستان کی سیاسی و عسکری قیادت اس عزم کا اظہار کر چکی ہے کہ ملک سے دہشت گردی کے مکمل خاتمے تک یہ کارروائیاں جاری رہیں گی۔

فوج کے سربراہ جنرل قمر جاوید باجوہ نے سال نو کی مناسبت سے اپنے پیغام میں کہا تھا کہ ایک مشکل سال ختم ہوا لیکن ملک کو اندرونی اور بیرونی چیلنجز کا سامنا ہے اور ان چیلنجز کو مواقع میں تبدیل کیا جا سکتا ہے۔

XS
SM
MD
LG